نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کے جابرانہ اقدام کو ایک برس مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہروں کے ڈر سے پوری وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر کے لیے 3 اگست کو جاری کردہ حکومتی ہدایت نامے میں کہا گیا کہ ’یہ پابندیاں فوری طور پر نافذ ہوں گی اور 4 اور 5 اگست تک نافذ العمل رہیں گی’۔
اس ضمن میں ایک سینئر پولیس عہدیدار نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر خبررساں ادارے کو بتایا کہ ’کشمیر کے تمام اضلاع میں مکمل طور پر کرفیو نافذ رہے گا‘۔
مکمل کرفیو کا مطللب اس دوران صرف اور صرف خصوصی سرکاری پاس کے ذریعے نقل و حرکت ممکن ہے جو ضروری سروسز مثلاً پولیس اور طبی عملے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں جبکہ باقی کشمیری عوام گھروں میں محصور رہیں گے۔
واضح رہے کہ بھارت نے پہلے ہی ہمالیائی خطے میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی آڑ میں کاروباری سرگرمیاں اور عوام کی نقل و حرکت محدود کر رکھی ہے۔
اس نئے حکم نامے کے تحت وائرس کے سلسلے میں نافذ لاک ڈاؤن کو 8 اگست تک توسیع دے دی گئی ہے۔
کرفیو سے متعلق نئے حکم نامے کے بعد پولیس کی گاڑیاں سری نگر میں رات کو گشت کرتی رہیں اور عوام کو میگا فون کے ذریعے گھروں میں رہنے کی ہدایات کی جاتی رہیں۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے مارچ میں کورونا وائرس کے سبب مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں مزید سخت کردی تھیں جس سے خطے کا سماجی و معاشی بحران مزید بگڑ گیا تھا۔
جس کے بعد کچھ پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی تاہم مقبوضہ کشمیر میں سیکڑوں چیک پوائنٹس اور انٹرنیٹ کی سروس انتہائی سست ہونے کی وجہ سے زندگی اب بھی مشکل ہے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق وادی میں معاشی حالات بھی دگردوں ہیں اور 2019 کے اختتام تک 5 لاکھ کشمیری اپنی ملازمتوں سے محروم ہوچکے تھے۔
دوسری جانب بھارتی حکام نے یکم اگست سے ہی وادی کشمیر میں عائد پابندیوں کو مزید سخت کرنا شروع کردیا تھا۔
اس سلسلے میں پیر کی صبح شہر کی مرکزی شاہراہوں کو بند کرنے کے لیے نئی خاردار تاریں اور لوہے کی رکاوٹیں لگائی گئیں۔
دیگر شہروں اور قصبوں کے رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس نے انہیں جمعرات تک اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنے کا حکم دیا ہے۔
یہ کرفیو بالکل اسی طرز کا کرفیو ہے جو بھارتی حکام نے گزشتہ برس 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت کے خاتمے سے قبل نافذ کیا تھا۔
اس دوران ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ بند کردیا تھا فون اور انٹرنیٹ لائنز منقطع کردی گئی تھیں اور دنیا کے سب سے فوج زدہ علاقے میں مزید فوجی دستے بھیج دیے گئے تھے۔
اس کے ساتھ کشمیری حریت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی آپریشنز میں بھی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ کچھ برسوں میں ہونے والے مسلح مقابلوں میں 2020 خونی سالوں میں سے ایک ثابت ہوا۔
مقبوضہ کشمیر کی مسلمان اکثریتی آبادی میں بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کے خلاف گزشتہ برس سے شدید غصہ پایا جاتا ہے بالخصوصی کشمیریوں کے مخصوص حقوق دوسروں کو دینے پر کہ جس سے وادی سے باہر کے لوگ یہاں زمین خرید سکیں گے۔
ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ خطے کی آبادی کا تناسب بگاڑنے کی سوچی سمھجھی کوشش ہے۔
یہاں یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف 3 دہائیوں سے مسلح جدوجہد جاری ہے جس میں ہزاروں کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔