یورپی یونین نے بیلاروس کے وزیر داخلہ سمیت 31 اعلیٰ عہدیداروں پر انتخابی نتائج کے تنازع کے حوالے سے ستمبر کے وسط میں معاشی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے تین سفارت کاروں نے کہا کہ 9 اگست کو منعقدہ انتخابات کے جواب میں اعلیٰ عہدیداروں پر معاشی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔
یورپی سفارت کار کا کہنا تھا کہ ‘ہم ابتدائی طور پر 14 ناموں پر متفق ہوئے تھے لیکن کئی ریاستوں کا خیال تھا کہ یہ کافی نہیں ہے اور اب ہم دیگر 17 پر بھی پابندی لگانے پر متفق ہوچکے ہیں’۔
رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے وزیر خارجہ نے گزشہ ماہ کے آخر میں ہی سفری پابندیوں اور اثاثوں کو منجمد کرنے کی سیاسی منظوری دی تھی لیکن کسی کو نامزد نہیں کیا گیا تھا۔
یورپی یونین کے آج کے اجلاس میں بھی ان پابندیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اور تفصیلات جاری کیے بغیر کہا گیا کہ بہت جلد ہی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
یورپی یونین کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘جلد از جلد پابندی عائد کرنے کے لیے ایک سیاسی عزم اور حتمی ارادہ ہے’۔
دوسری جانب یونان اور قبرص نے مشرقی بحیرہ روم میں جاری تنازع سے متعلق ترکی پر پابندیوں پر زور دیا جس پر بیلاروس پر پابندی کی حمایت کی شرط رکھی گئی۔
سفارت کار کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے تمام 27 رکن ممالک کو اس طرح کے اقدامات پر متفق ہونا ضرری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایتھنز اور نیکوسیا کو ترکی کے خلاف سخت اقدامات کے لیے بیلاروس کو بلیک لسٹ کرنے کی حمایت کرنا پڑے گی۔
بیلاروس کے اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیوں کے حوالے سے سفارت کاروں کو کہنا تھا کہ یورپی یونین کے وزیر خارجہ کے اگلے اجلاس کے بعد 21 ستمبر تک باضابطہ اتفاق ہوجائے گا اور پابندیوں کا نفاذ 22 ستمبر کو ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق ان پابندیوں میں بیلاروس کے وزیر داخلہ یوری کارائیوف اور ان کے نائب بھی شامل ہوں گے، ان کے علاوہ الیکشن کمیشن، سیکیورٹی اور وزارت قانون کے سینئر عہدیدار بھی اس فہرست میں ہوں گے۔
یورپی یونین کی صدارت پر براجمان جرمنی ان پابندیوں سے قبل مذاکرات کے لیے مزید وقت دینے کا حامی ہے اور بیلاروس کے صدر کو بھی شامل کرنے لیے امکانات کو روشن رکھنا چاہتا ہے۔
یاد رہے کہ یکم ستمبر کو یورپ کے بالٹک ریجن کے ممالک ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوانیا نے مظاہرین کے ساتھ یک جہتی کرنے کے لیے بیلاروس کے صدر اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔
لتھوانیا کے وزیرخارجہ لیناس لینکویشس کا کہنا تھا کہ ‘ہم پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمیں صرف بیانات دینے سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے’۔
خیال رہے کہ بیلاروس میں 9 اگست کو انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد اپوزیشن نے طویل عرصے سے برسر اقتدار لوکاشینکو پر دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا اور شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔
صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو نے 80 فیصد نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ اپوزیشن رہنما نے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔
صدر کے اعلان کے بعد بیلاروس میں شدید احتجاج شروع ہوا تھا جس کو 1991 میں سوویت یونین سے آزادی کے بعد بدترین احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔
یورپی یونین نے انتخابات کے متنازع نتائج کو مسترد کرتے ہوئے صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو کی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ہنگامی اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ ہمارا بلاک بیلاروس کے عوام کے ساتھ ہے، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی جیت نہ تو شفاف تھی اور نہ ہی آزادانہ انتخاب تھا۔
چارلس مائیکل کا کہنا تھا کہ جلد ہی کشیدگی پھیلانے، دباؤ ڈالنے اور انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افراد تک پہنچا جائے گا۔
پابندیوں سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ان پر یورپی یونین میں سفری پابندی ہوگی اور اثاثے بھی منجمد ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف تھے اور بین الاقوامی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے، بیلاروس کے حکام کی جانب سے پیش کیے گئے انتخابی نتائج کو ہم نہیں مانتے ہیں’۔
بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو 26 برس سے ملک میں حکمرانی کر رہے ہیں لیکن انتخابات کے بعد ہونے والے احتجاج نے حکومت پر ان کی گرفت کمزور کردی ہے تاہم انہیں روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔