لبنان کے عوام نے حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد ملک میں مزید تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے خاتمے سے بیروت سانحے کا مداوا نہیں ہوسکتا۔
لبنان میں ‘پہلے حکام کو دفناؤ’ کے نعرے لگائے گئے اور پورٹ کے قریب احتجاج کیا گیا جہاں 4 اگست کو خوف ناک دھماکے میں 163 افراد ہلاک اور 6 ہزار زخمی ہوگئے تھے جبکہ سیکڑوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
لبنان کے عوام کا خیال ہے کہ وزیراعظم حسن دیاب اور حکومت کا خاتمہ سیاسی صورت حال میں معمولی تبدیلی ہے۔
ایک اور کاروباری شخصیت رونی لیٹاؤف نے کہا کہ ‘میرا نہیں خیال کہ حکومت کے استعفے سے کوئی فرق پڑے گا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘لبنان میں تمام وزرا صرف چہرے ہیں لیکن ان کے پیچھے ملیشیا ہیں جو کنٹرول کررہی ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ملیشیا ہی ہیں جو لبنان میں فیصلے کرتی ہیں، عوام ان کو ہٹانے کے لیے طاقت ور اقدام کریں گے’۔
ایک شہری نے ٹوئٹر پر حکومت کے استعفے پر کہا کہ ‘میری رائے میں حکومت کے استعفے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا یا لبنان کے عوام کے لیے بہتری نہیں ہوگی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘حقیقی کرپٹ لوگ اب بھی اپنی جگہ سے حکومت کررہے ہیں’۔
واضح رہے کہ حکومت کے استعفے کے بعد لبنانی صدر عون کو اگلے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارلیمانی حلقوں سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے اور نئے وزیراعظم کے لیے بھرپور تعاون سے امیدوار کو چنا جائے گا۔
لبنان میں جاری عوامی احتجاج اور معاشی بدانتظامی کے علاوہ ماضی میں حکومت کی تشکیل کو دیکھتے ہوئے نئے وزیراعظم کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ ہے اور ان کو مالی مشکلات پر قابو پانا ہے۔
خیال رہے کہ بیروت میں گزشتہ ہفتے تباہ کن دھماکے اور حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج کے بعد لبنان کے وزیر اعظم حسن دیب اور ان کی کابینہ نے گزشتہ روز استعفیٰ دے دیا تھا۔
وزیراعظم حسن دیب نے استعفے کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں’ جبکہ دو روز قبل لبنان کے وزیراعظم نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کو بحران سے نکالنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
مستعفی وزیر برائے پبلک ورک مشیل نجر نے کہا تھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ نگراں حکومت کی مدت طویل نہیں ہوگی کیونکہ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا، امید ہے کہ جلد ہی ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک مؤثر حکومت ہی ہمیں بحران سے نکال سکتی ہے‘ جبکہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے قبل 4 وزرا استعفیٰ دے چکے تھے۔
دوسری جانب حکومت مخالف مظاہروں کے دوسرے دن لبنانی پولیس نے بیروت میں پارلیمنٹ کے قریب سڑک بند کرنے اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کے لیے آنسو گیس فائر کیے گئے تھے۔
بیروت پورٹ پر 2 ہزار ٹن سے زائد امونیم نائٹریٹ کے دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جس کے بعد عوام کا حکومت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔
جس کے بعد لبنان کے شہر بیروت میں ہزاروں مشتعل مظاہرین نے وزارت خارجہ اور وزارت اقتصادیات کے دفاتر پر دھاوا بول دیا تھا۔
مظاہرین نے وسطی بیروت میں پارلیمنٹ کی عمارت تک جانے کی کوشش کی اور اس دوران مظاہرین اور پولیس کے مابین کشیدگی بھی دیکھی گئی۔