کینیڈا کی گورنر جنرل ہراساں کرنے کے الزامات پر مستعفی

کینیڈا کی گورنر جنرل اور ملکہ ایلزبیتھ کی نمائندہ جولی پییٹ نے دفتر میں عملے کو ہراساں کرنے کے الزامات پر استعفیٰ دے دیا۔

خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق گورنر جنرل کے استعفے پر حکومت کے لیے کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا کیونکہ یہ عہدہ علامتی ہوتا ہے جو حلف برداری اور قانون سازی پر دستخط کرنے کے لیے ہوتا ہے، لیکن آئینی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جولی پییٹ نے ان کے خلاف خوف زدہ کرنے کے الزامات کی آزادانہ تحقیقات کی رپورٹ آنے کے گھنٹوں بعد استعفیٰ دیا۔

مستعفی گورنر جنرل نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ نئے گورنر جنرل کا تقرر کیا جائے، کینیڈا کے عوام اس غیر یقینی دور میں استحکام کے مستحق ہیں’۔

جولی پییٹ موجودہ حکومت میں مستعفی ہونے والی پہلی گورنر جنرل ہیں اور ان کی جگہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اگلی تقرری تک عارضی طور پر ان کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی تجویز پر 57 سالہ جولی پییٹ نے اکتوبر 2017 میں 5 برس کے لیے گورنر جنرل کی حیثیت سے منصب سنبھالا تھا، جبکہ ان کے خلاف تحقیقات گزشتہ برس جولائی میں شروع کی گئی تھی۔

جسٹن ٹروڈو نے ان کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک بہترین گورنر جنرل ہیں۔

جولی پییٹ اس سے قبل کینیڈا کی خلابازی کی سربراہ بھی تھیں اور انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں نمائندگی کرنے والی کینیڈا کی پہلی خاتون بن گئی تھیں۔

جسٹن ٹروڈو نے مختصر بیان میں کہا کہ استعفے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گورنر جنرل کے دفتر میں ہونے والی ہراسانی کا ازالہ ہوسکتا ہے جبکہ انہوں نے جولی پییٹ کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ گورنر جنرل کے انتخاب کے موقع پر خواتین کے حوالے سے معاملات کو دیکھا جائے گا اور خصوصی کمیٹی کی جانب سے اس منصب کے لیے مضبوط امیدوار تجویز کیا جائے گا۔

اپوزیشن جماعت نیو ڈیموکریٹس کے رکن ڈون ڈیویئس کا کہنا تھا کہ جولی پییٹ منصب کی مدت پوری نہ کرنے کی ذمہ دار خود ہیں۔

فراسر ویلی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور آئینی ماہر باربرا میسامور کا کہنا تھا کہ ‘یہ کوئی آئینی بحران نہیں ہے، اس منصب کو جاری رکھنے کے لیے نظام موجود ہے’۔