کرائسٹ چرچ مسجد حملہ: غمزدہ خاندانوں نے دہشت گرد کا ’سفید بالادستی‘ کا نظریہ مسترد کردیا

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر ہونے والے حملے کے سب سے ننھے شہید 3 سالہ موکاد ابراہیم کے والد نے اپنے بیٹے کے سفید فام قاتل برینٹن ٹیرنٹ کو کہا کہ آئندہ زندگی میں ’سچا انصاف‘ اس کا منتظر ہے جو قید سے زیادہ سخت ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق عدالت میں عدن ابراہیم کا بیان ان کے ایک رشتہ دار نے پڑھا جس میں انہوں نے کہا کہ تم نے میرے بیٹے کو قتل کیا جو میرے لیے ایسا ہے جیسے تم نے پورے نیوزی لینڈ کو قتل کردیا۔

25 سال قبل صومالیہ سے ہجرت کرنے والے عدن ابراہیم نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بیٹے سے مستقبل لوٹ لیا گیا۔

بیان میں انہوں نے کہا کہ ’جانتے ہو حقیقی انصاف اگلی زندگی میں تمہارا منتظر ہے جو اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا میں تمہیں تمہارے کیے کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گا’۔

ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی تھی اگر عبدالعزیز وہاب زادہ نہ ہوتے جنہیں ہائی کورٹ جج نے ان کی بہادری کے لیے سراہا۔

لین ووڈ مسجد میں فائر کرنے کے بعد جب دہشت گرد اپنی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کار کی جانب آیا تو عزیز نے بینک کارڈ مشین اور آگ دکھا کر اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔

عدالت میں انہوں نے بیان دیا کہ ’میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ مسجد میں داخل ہو کیوں کہ اس وقت 80 سے 100 افراد نماز ادا کررہے تھے’۔

النور مسجد میں دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے 71 سالہ محمد داؤد نبی کے بیٹے نے اپنے غم و غصے کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’تمہارا باپ کچرا شخص تھا اور تم معاشرے کے لیے گندگی بن گئے ہو تم کوڑا کرکٹ کی جگہ پر دفن کیے جانے کے مستحق ہو‘۔

نیوزی لینڈ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق داؤد نبی ایک ریٹائرڈ انجینیئر اور 5 بچوں کے والد تھے جو سوویت جنگ کے دوران اپنے آبائی وطن افغانستان کو چھوڑ کر اہل خانہ سمیت نیوزی لینڈ منتقل ہوگئے تھے۔

ایک اور شہید عبدالفتح قاسم کی بیٹی سارا قاسم نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے والد کے باغ کی بنائی چٹنی کی خوشبو کو یاد کرتی ہیں اور ان کی فلسطین میں زیتون کے درختوں کی کہانیاں سننا چاہتی ہیں۔

محافظوں کے گھیرے میں موجود برینٹن ٹیرنٹ کو گھورتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’تم نے یہاں ایک انتخاب کیا جو جان بوجھ کر احمقانہ، غیر ذمہ دارانہ، خون سرد کردینے والا، خود غرض، مکروہ، گھناؤنا اور شیطانی انتخاب تھا‘۔

اس کے علاوہ عدالت میں النور مسجد میں متعدد گولیوں کا نشانہ بننے والی کم سن بچی کے والدین بھی اپنا بیان دینے آئے، وسیم دراگمیہہ اپنی بیٹی کے ہمراہ مسجد گئے تھے اور انہیں بھی کئی گولیاں لگی تھیں تاہم متعدد سرجریز کے بعد دونوں باپ بیٹی کی زندگی محفوظ رہی۔

بچی کا نام قانونی وجوہات کی بنا پر افشا نہیں کیا گیا جسے گولیوں کی وجہ سے نہ صرف متعدد مرتبہ اندرونی طور پر خون کا رساؤ ہوا بلکہ دل کا دورہ بھی پڑا۔

عدالت میں بچی کی والدہ نے بیان پڑھا اور دونوں ماں باپ قاتل کے لیے لفظ ادا کرتے ہوئے غصے میں نظر آئے۔