تائیوان نے الزام لگایا کہ چین، تائیوان پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ اسے اگلہ ہانک گانگ بنایا جا سکے۔ خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق تائیوان کے وزیر خارجہ جوزف وو نے امریکی سیکریٹری صحت الیکس آذر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ تائیوان کو چین کی جانب سے مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ بیجنگ جزیرے پر ایسے حالات قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے جو اسے اگلا ہانگ کانگ بنا ڈالیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ 4 دہائیوں میں پہلی مرتبہ کوئی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے تائیوان کا دورہ کیا ہے۔ دوسری جانب چین نے امریکی سیکریٹری صحت کے دورے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ تائیوان اپنا دعویدار خود ہے۔ خیال رہے کہ امریکی عہدیدار کی جانب سے ایسے وقت پر تائیوان کا دورہ کیا گیا جب چین کے جنگی طیارے تائیوان کے حساس فضائی حدود میں داخل ہوئے تو تائیوان نے طیارہ شکن میزائلوں سے ان پر حملہ کیا۔
مذکورہ واقعے کو چین کی جانب سے تائیوان کو ہراساں کیے جانے کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
علاوہ ازیں چین کے زیر اقتدار ہانک کانگ میں پولیس نے قومی سلامتی کے ایک سخت قانون کے تحت میڈیا ٹائکون جمی لائی کو گرفتار کرلیا ہے۔
خیال رہے کہ چین نے ‘ایک ملک، دو نظام’ پر مشتمل خودمختاری کے ماڈل تجویز کیا تھا لیکن تائیوان میں تمام بڑی جماعتوں اور حکومت نے مذکورہ تجویز کو مسترد کردیا تھا۔
تائیوان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘تائیوان خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس امریکا سے سیکریٹری صحت جیسے دوست ہیں جو تائیوان کی عالمی حیثیت کے لیے جدوجہد میں مدد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف تائیوان کی حیثیت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ آمرانہ جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت کو برقرار رکھنے کے بارے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تائیوان کو یہ لڑائیاں جیتنی ہے تاکہ جمہوریت غالب رہے’۔
واضح رہے کہ واشنگٹن نے 1979 میں بیجنگ کی حمایت میں تائیوان سے سرکاری تعلقات منقطع کردیے تھے لیکن پھر بھی تائیوان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ ہے۔
چین کے ساتھ تجارتی محاذ پر کشیدگی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کے لیے اپنی حمایت کو تقویت دینے کو ترجیح دی ہے۔
اس موقع پر امریکی سیکریٹری صحت نے کہا کہ دنیا کو شعبہ صحت میں تائیوان کی خدمات اور کامیابیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ امریکی عہدیدار کی جانب سے مذکورہ بیان چینی اعتراضات پر تائیوان کی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے دستبرداری کی طرف تھا۔
چین، تائیوان کو محض ایک دیہاتی صوبہ سمجھتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جنوری میں چین کے صدر شی جن پنگ نے ہانک کانگ اور تائیوان کے الحاق کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ بیجنگ تائپے کی آزادی کی کسی بھی کوشش کے خلاف ہے۔
چین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ بغاوت کو ختم کرنے کے لیے اپنے فوجی آپشن کو ترک نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ چین تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک نے 1949 کی خانہ جنگی کے بعد علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
واضح رہے کہ تائیوان اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملک تصور کرتا ہے جس کی اپنی کرنسی، سیاسی اور عدالتی نظام ہے، تاہم اس نے باقاعدہ طور پر اپنی آزادی کا اعلان نہیں کیا۔
دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے، تاہم 2016 میں صدر سائی اینگوین کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات میں اس وقت مزید خرابی پیدا ہوئی جب انہوں نے جزیرے کو ’ایک چین‘ سمجھنے کے بیجنگ کے مؤقف کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔