ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک نے معاہدے کی حمایت کا اظہار جبکہ چین نے تہران پر بین الاقوامی پابندیوں کی بحالی اور اسلحے کی پابندی میں توسیع کے لیے امریکی کوششوں پر شدید تنقید کی۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی معاہدے کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، دوسری جانب امریکا کی جانب سے معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے ایران جوہری سرگرمیاں آہستہ آہستہ بڑھا رہا ہے۔
تہران نے کہا ہے کہ وہ معاہدے کی شرائط کے تحت ایسا کرنے کا حقدار ہے۔
اس مذاکرات میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، ایران اور روس کے نمائندوں نے شرکت کی۔
چین کے نمائندے و وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار فو کانگ نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ایران کو معاہدے کی تعمیل پر مکمل طور پر واپس آنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی ‘وہ اقتصادی فوائد جو ایران کو ملنے چاہیئں وہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے’۔
انہوں نے معاہدے کو سبوتاژ کرنے اور ختم کی کوشش میں ‘بین الاقوامی قانون کا مذاق اڑانے’ پر امریکا پر تنقد کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کو معاشی فوائد کی فراہمی کے لیے دوسرے ممالک کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں امریکا کسی بھی طرح سے باز نہیں آرہا ہے۔
واضح رہے کہ 8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے تہران سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔
5 مارچ 2019 کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کر رہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔
یاد رہے کہ 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔
ایران نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران بیلسٹک میزائل بنانے کے تمام پروگرام بند کردے گا اور اس معاہدے کے متبادل کے طور پر ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اسے امداد کے لیے اربوں روپے حاصل ہوسکیں گے۔