میانمار کی معزول رہنما آنگ سان سوچی یکم فروری کو فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پیر کو پہلی مرتبہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوئیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق وکیل ‘تھا مونگ’ نے بتایا کہ سوچی کی صحت اچھی تھی اور سماعت سے آدھا گھنٹہ قبل انہوں نے اپنی قانونی ٹیم سے دوبدو ملاقات کی۔
جمہوریت کے قیام کی کوششوں کے لیے 1991 میں امن کا نوبیل انعام جیتنے والی 75 سالہ آنگ سان سوچی فوجی بغاوت کے بعد دیگر چار ہزار سے زائد افراد کے ہمراہ زیر حراست ہیں، انہیں غیرقانونی طور پر واکی ٹاکی ریڈیو ساتھ رکھنے سے لے کر ریاستی خفیہ قوانین کی خلاف ورزی جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
معزول رہنما نے اپنے وکلا سے ملاقات میں لوگوں کی بہتری کی خواہش ظاہر کی اور اپنی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کا بھی حوالہ دیا جسے جلد ہی تحلیل کیا جا سکتا ہے۔
تھا مونگ نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی لوگوں کے لیے قائم کی گئی ہے لہٰذا جب تک عوام ہوں گے، اس وقت تک پارٹی موجود ہوگی۔
میڈیا رپورٹس میں الیکشن کمشنر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ میانمار کی جنتا (فوج) کی جانب سے مقرر کردہ انتخابی کمیشن نومبر کے انتخابات میں سوچی کی سیاسی جماعت کو ووٹوں میں مبینہ جعلسازی کے الزام میں تحلیل کردے گا اور الیکشن کمشنر نے ’غداروں‘ کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
فوج نے نومبر میں سوچی کی پارٹی کے جانب سے جیتے گئے انتخابات میں دھوکا دہی کے الزامات عائد کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا البتہ سابقہ الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔
بغاوت کے بعد غیر ملکی میڈیا کو اپنے پہلے انٹرویو میں جنتا کے رہنما من آنگ ہیلنگ نے یہ بھی کہا تھا کہ سوچی کی طبیعت ٹھیک ہے البتہ انہوں نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد پر سوالات اٹھاتے ہوئے اعدادوشمار کو متنازع قرار دیا تھا۔
سیاسی قیدیوں کی مقامی سماجی تنظیم کے مطابق فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد سے ہی ملک بھر میں جنتا کے خلاف یومیہ احتجاج، مارچ اور ہڑتالیں کی گئیں اور فوج کی جانب سے ان مظاہروں کا طاقت سے جواب دیا گیا جس کے نتیجے میں 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
تاہم 20 مئی کو کیے گئے انٹرویو میں من آنگ ہیلنگ نے کہا کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد 300 کے قریب تھی اور اس دوران 47 پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔