متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے ہونے والے حالیہ امن معاہدے کے تحت امریکا نے امارات کی جانب سے ایف 35 جنگی طیاروں کی خریداری کی درخواست پر غور شروع کردیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ایک صنعتی ذرائع نے بتائی، جو حکومتی عہدیداران سے ہونے والے مذاکرات میں شریک تھے۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے فوجی فوائد کو کم کرنے والی اس فروخت کا امکان ایسے وقت میں سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ وہ سفارتی تعلقات معمول پر لائیں گے اور اس معاہدے کے تحت ایک وسیع تر تعلقات استوار کریں گے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن کے تیار کردہ ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے جسے اسرائیل بھی استعمال کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ ایف 35 خریدنا چاہتے ہیں، ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے، اس پر جائزہ لیا جارہا ہے’۔
بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے خطے میں اسرائیلی فوجی برتری کو برقرار رکھنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ متحدہ عرب امارات کو امریکی ایف 35 طیاروں کی فروخت کی مخالفت کریں گے۔
واضح رہے کہ ایف 35 طیاروں کی فروخت پر بات چیت اور فراہمی میں سالوں لگ سکتے ہیں، جس سے ایک نئی امریکی صدارتی انتظامیہ کو معاہدے کو روکنے کے لیے کافی وقت مل سکتا ہے۔
پولینڈ جس نے حال ہی میں 32، ایف 35 طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے اسے 2024 تک پہلی ترسیل ملے گی جبکہ اس کے علاوہ کسی بھی فروخت کو کانگریس کی منظوری کی بھی ضرورت ہوگی۔
صنعتی ذرائع نے بتایا کہ طیاروں کی ممکنہ فروخت کا انتظام ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد جیریڈ کشنر کی مدد سے کیا گیا۔
پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر معاملے پر رائے دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایف 35 طیارے کی ممکنہ فروخت کے معاہدے کو اسرائیلی اخبار نے سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا۔
اس رپورٹ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے متحدہ عرب امارات کو کسی بھی امریکی اسلحے کی فروخت کے خلاف اپنی مخالفت میں لچک پیدا نہیں کی جو امریکا کی طرف سے ان کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کے حصے کے طور پر فوجی استحکام کو کم کرسکتی ہے۔
کئی دہائیوں پرانے مفاہمت کے تحت واشنگٹن نے مشرق وسطی کو ہتھیاروں کی فروخت سے انکار کرتا رہا ہے جو اسرائیل کی ‘کوالٹیٹو ملٹری ایج’ (کیو ایم ای) یا عام لفظوں میں اسرائیل کی فوجی برتری کو توڑ سکتا ہے۔
اس کا اطلاق ایف 35 پر بھی رہا ہے جس کی عرب ریاستوں کو فروخت سے انکار کیا جاتا رہا جبکہ اسرائیل نے اسے خریدا ہوا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کے تحت اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں کو ضم کرنے کے اپنے منصوبے کو معطل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس معاہدے میں علاقائی طاقت ایران کی جانب سے بھی مخالفت کی گئی تھی جسے متحدہ عرب امارات، اسرائیل اور امریکا مشرق وسطی میں ایک اہم خطرہ سمجھتے ہیں۔