چین اور بھارت کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماسکو میں ایک اعلی سطحی سفارتی اجلاس کے بعد ہمالیائی سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کرنے اور ‘امن و امان’ کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق چینی ریاستی کونسلر وانگ یی اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جمعرات کو ماسکو میں ملاقات کے بعد مشترکہ بیان کہا کہ پانچ نکات پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جس میں رضامندی ظاہر کی گئی ہے کہ موجودہ سرحدی صورتحال ان کے مفادات میں نہیں ہے اور دونوں فریقین کی فوج کو فوری طور پر کشیدگی کو کم کرنا چاہیے۔
یہ اتفاق رائے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ہوا اور یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے ہی مغربی ہمالیہ کے سرحدی علاقے میں بھارت اور چینی فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔
اس خبر کے بعد آج چینی اسٹاک مارکیٹ میں دفاع سے متعلقہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی جہاں سی ایس آئی نیشنل ڈیفنس انڈسٹری انڈیکس میں 1.2 فیصد کمی واقع ہوئی۔
شیئر کی قیمتوں میں یہ کمی 12 اکتوبر 2018 کو ہونے 16.4 فیصد کی کمی کے بعد سے سب سے تیز ہفتہ وار کمی بتائی جارہی ہے جس کے مزید گرنے کا امکان بھی ہے۔
چین اور بھارت نے محاذ آرائی کے دوران ایک دوسرے پر ہوائی فائرنگ کا الزام عائد کیا تھا جو سرحدی علاقے میں اسلحے کا استعمال نہ کرنے کے دیرینہ پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ وانگ یی نے ملاقات کے دوران ایس جے شنکر کو بتایا کہ ‘ضروری ہے کہ اشتعال انگیزی کو فوری طور پر روکا جائے جس میں دونوں جانب سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی میں فائرنگ اور دیگر خطرناک کارروائیاں شامل ہیں’۔
وانگ یی نے یہ بھی کہا کہ سرحد پر لائے گئے تمام اہلکاروں اور سازوسامان کو منتقل کیا جانا چاہیے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں اطراف کے سرحدی فوجیوں کو ‘فوری طور پر دستبرداری کرنی ہوگی’۔
ان کی رائے چینی فوج کے حالیہ پاور شو کے برعکس ہیں۔
چینی اخبار گلوبل ٹائمز، جو چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری اخبار کی جانب سے شائع ہونے والا ایک با اثر اخبار ہے، نے بدھ کے روز رپورٹ کیا تھا کہ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) فوجی، بمبار اور بکتر بند گاڑیاں سرحد پر منتقل کررہی ہے۔
چینی سرکاری میڈیا نے بھی حال ہی میں تبت میں پی ایل اے کے نیم فوجی دستوں میں اضافہ رپورٹ کیا تھا۔
گلوبل ٹائمز نے جمعرات روز شائع ہونے والے ایک اداریے میں کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی مذاکرات کو ‘جنگی تیاری’ کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔
اخبار کا کہنا تھا کہ ‘چین کو سفارتی مداخلت میں ناکام ہونے پر فوجی کارروائی کرنے کے لیے پوری طرح تیار رہنا چاہیے اور اس کی صف اول کے فوجیوں کو ہنگامی صورتحال کا جواب دینے کے قابل ہونا چاہیے’۔