سعودی عرب کے حکمران شاہ سلمان بن عبد العزیز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا ہے کہ سعودی مملکت فلسطین کے مسئلے کے منصفانہ اور مستقل حل کی خواہش مند ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ نے سعودی سرکاری نیوز ایجنسی کا حوالہ دے کر بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو فون پر سعودی حکمران نے کہا کہ ‘فلسطین کے مسئلے کا منصفانہ حل مملکت کے مجوزہ عرب امن اقدام کا مرکزی نقطہ ہے’۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ امریکا نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تاریخی امن معاہدے کا اعلان کیا تھا جس تحت متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والی تیسری عرب ریاست بن گئی ہے۔
اس تجویز کے تحت عرب ممالک نے فلسطینیوں سے ریاستی معاہدے کیے اور 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں زیر قبضہ علاقے سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی بنیاد پر تعلقات بحال کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 13 اگست کو امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے ایک امن معاہدہ طے پاگیا ہے، جس کے بعد امریکا اور اسرائیل کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے امارات پہنچا تھا۔
مذکورہ اعلان کے ساتھ ہی امریکا کی جانب سے دیگر عرب ریاستوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بھی امارات کے اقدام کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات کو استوار کریں، جس پر سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک متحدہ عرب امارات کی تقلید میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتا جب تک یہودی ریاست فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہ کردیں۔
رواں ماہ سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین پروازوں کو اس کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے ڈونلڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان کے درمیان گفتگو کے حوالے سے کہا کہ امریکی صدر نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پروازوں کے لیے سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور علاقائی سلامتی کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوڈ ڈیری نے بتایا کہ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ٹرمپ نے شاہ سلمان سے دوسرے خلیجی ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کرنے کی تاکید کی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے مشیر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیریڈ کشنر نے امید ظاہر کی تھی کہ ایک اور عرب ملک آئندہ چند مہینوں کے اندر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرے گا۔
بعدازاں مذکورہ پیش رفت سے متعلق اسرائیل کے بارے میں مملکت کی پالیسی میں مہارت رکھنے والی ایسیکس یونیورسٹی کے ایک لیکچرر عزیز الغشیان نے کہا تھا کہ ‘یہ خیال کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سعودی عرب گے آئے گا یہ بہت دور کی بات ہے’۔
انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات میں سے بڑی رکاوٹ داخلی اور علاقائی ردعمل کا خوف نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب خود کو مسلم اور عرب دنیا میں بطور لیڈر دیکھنا چاہتا ہے اس لیے ضروری سمجھتا ہے کہ فلسطین کے معاملے کو ‘عرب امن اقدام کے فریم ورک’ کے اندر تعلقات معمول پر لائیں’۔
واضح رہے کہ یو اے ای کے سرکاری میڈیا کے مطابق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ‘موساد’ کے سربراہ یوسی کوہن نے سیکیورٹی سے متعلق امور پر بات چیت کے لیے یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔
یوسی کوہن نے ابوظبی میں متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زید النہیان کے ساتھ ‘سلامتی امور کے شعبوں میں تعاون بڑھانے’ اور علاقائی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے بعد امریکا نے مسلم دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہاؤس کے مشیر جیرڈ کشنر نے کہا تھا کہ یہ سعودی عرب کے مفاد میں ہوگا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے، جیسا کہ متحدہ عرب امارات نے کیا ہے۔