سانحہ بیروت پر لبنان کی وزیر اطلاعات کی عوام سے معذرت، عہدے سے مستعفی

لبنان کی وزیر اطلاعات منال عبدالصمد بیروت کی بندرگاہ میں ہونے والے دھماکے میں 150 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔

دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے ایک بیان میں لبنانی عوام سے حکومتی ناکامی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ‘بیروت کی مایوس کن تباہی کے بعد میں نے حکومت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا’۔

واضح رہے کہ وہ پہلی حکومتی رکن ہیں جنہوں نے مذکورہ حادثے کے بعد استعفیٰ دیا۔

دوسری جانب دھماکے سے مشتعل لبنانی مظاہرین نے ایک مرتبہ پھر ریلی نکالنے کے عزم کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز لبنان کے شہر بیروت میں ہونے والے حالیہ دھماکے کے بعد ہزاروں مشتعل مظاہرین نے وزارت خارجہ اور وزارت اقتصادیات کے دفاتر پر دھاوا بول دیا۔

مظاہرین نے وسطی بیروت میں پارلیمنٹ کی عمارت تک جانے کی کوشش کی اور اس دوران مظاہرین اور پولیس کے مابین کشیدگی بھی دیکھی گئی۔

مارونائٹ چرچ کے سربراہ نے سانحے کو ‘انسانیت کے خلاف جرم’ قرار دیا۔

اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا کہ ‘کسی قانون ساز کے لیے استعفیٰ دینا کافی نہیں ہے، یہ ضروری ہے جی لبنانیوں کے جذبات اور اس کی بے پناہ ذمہ داری کی حساسیت کے باوجود پوری حکومت کو استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک کو ترقی دینے سے قاصر ہیں’۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والے مظاہروں پر لبنانی فوج نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری بیان میں مظاہرین سے سرکاری اور نجی املاک کو تباہ یا نقصان نہ پہنچانے کی اپیل کی تھی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘آرمی کمانڈ لبنانی عوام کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں اور ہم مظاہرین کو پرامن طریقے سے اظہار رائے کی تلقین کرتے ہیں، سڑکوں کو مسدود کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور اس پر قبضے کرنے سے گریز کریں’۔

علاوہ ازیں لبنان کے وزیر اعظم حسن دیب نے دھماکے کے بعد قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کے بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ قبل از وقت انتخابات کی تجویز پیش کرنے والا مسودہ بل پیش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرائے بغیر ملک کے انتظامی بحران سے باہر نہیں نکل سکتے، ہمیں ایک نئی سیاسی طاقت اور نئی پارلیمنٹ کی ضرورت ہے’۔

واضح رہے کہ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے وسط میں واقع ساحلی ویئرہاؤس میں چند روز قبل ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 158 سے تجاوز کر گئی ہے اور 5 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ اموات میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ریسکیو اور ایمرجنسی ادارے ملبے کے ڈھیر سے لاشیں نکال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے باعث 2 لاکھ 50 افراد بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ گھروں کا سامان سڑکوں میں بکھر گیا ہے۔

یہ معاشی بحران سے دوچار اور کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نبردآزما بیروت میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہونے والا سب سے بڑا دھماکا ہے۔

صدر مشعل عون نے کہا تھا کہ 2 ہزار 750 ٹن امونیم نائٹریٹ کا فرٹیلائزر اور بموں میں استعمال کیا گیا جسے بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے چھ سال سے پورٹ پر ذخیرہ کیا جا رہا تھا اور یہ عمل ناقابل قبول ہے۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کو بیرون شہر سے باہر لے جایا جا رہا ہے کیونکہ بیروت کے ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں جبکہ ملک کے جنوبی اور شمالی علاقوں سے تمام ایمبولینسز کو طلب کر لیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دھماکا ایک ایسے وقت میں ہوا تھا جب اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عدالت 3 دن بعد ہی 2005 بم دھماکوں میں ملوث حزب اللہ کے چار ملزمان کے مقدمے کا فیصلہ سنانے والی تھی۔

2005 میں بیروت میں ٹرک دھماکے میں سابق وزیر اعظم رفیق الحریری سمیت 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور وہ دھماکا بھی ساحل سے محض دو کلومیٹر دور ہوا تھا۔