تاریخ متحدہ عرب امارات کے ‘منافقانہ رویے’ کو کبھی فراموش نہیں کرے گی، ترکی

ترکی اور ایران نے اپنے علاقائی حریف متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پر امریکا کی جانب سے اعلان کردہ امن معاہدے میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس پر فلسطین کاز کے ساتھ غداری کرنے کا الزام عائد کردیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کی رپورٹ کے مطابق ترک وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ یو اے ای کو فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے یا ‘فلسطین کے لیے اہم معاملات پر مراعات دینے’ کا کوئی اختیار نہیں۔ ترکی کی جانب سے کہا گیا کہ تاریخ اور خطے کے لوگوں کا ضمیر ‘اسے نہیں بھولے گا اور متحدہ عرب امارات کے اس منافقانہ رویے’ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا عندیہ دے دیا۔ رجب طیب اردوان نے استنبول میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ہم متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات معطل کرنے یا وہاں سے اپنا سفیر واپس بلانے کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔’ خیال رہے کہ اس معاہدے نے متحدہ عرب امارات کو خلیج عرب کا پہلا اور مصر اور اردن کے بعد تیسرا عرب ملک بنا دیا ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات ہیں۔

وہیں فلسطینیوں کی جانب سے اس معاہدے کو ‘غداری’ کے مترادف کہتے ہوئے عرب اور مسلم ممالک سے اس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ادھر ایرانی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کو ‘متحدہ عرب امارات کی جانب سے فلسطینیوں اور تمام مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا’ قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ‘امن معاہدہ’ ہوا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں گے۔ معاہدے کے مطابق اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کے یکطرفہ الحاق کے اپنے منصوے کو مؤخر کردے گا۔

اس معاہدے کے بارے میں امریکی صدر نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ امریکی صدر نے پیش گوئی کی تھی کہ خطے کے دیگر ممالک بھی یو اے ای کے نقش قدم پر چلیں گے۔ یہ بات مدِ نظر رہے کہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر 1967 کی 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور بعد میں اس کا الحاق کرلیا تھا جسے بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ اسرائیل، یو اے ای اور دیگر خلیجی ممالک جو ایران کو خطے کے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں ان کے حالیہ عرصوں میں قریبی تعلقات استوار ہوئے ہیں۔ اگرچہ ترکی کے دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم صدر طیب اردوان کے دور میں انہیں فلسطینیوں کے چیمپیئن کے طور پر ایک پوزیشن حاصل ہے۔ اس کے علاوہ خطے کے ایک اور ملک لیبیا میں تنازع میں ترکی اور یو اے ای دونوں حریف گروہوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔

تاہم جنوری میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ‘امن کے وژن’ سے منصوبہ پیش کرنے کے بعد رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ ترکی کبھی اس منصوبے کو قبول نہیں کرے گا اور عرب خلیجی ریاستوں پر فلسطینی کاز کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔ خیال رہے کہ ترکی اور ایران کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں تناؤ چلتا آرہا ہے جس میں پراکسیز، اثرورسوخ کی جنگ و دیگر وجوہات ہیں۔ ترکی اور عرب ممالک خاص طور پر امارات کے درمیان کشیدگی میں اضافہ تب دیکھنے میں آیا جب برسوں سے بحیرہ روم میں جاری گیس کے معاملے پر کشیدگی کو اس وقت بڑھا دیا گیا جب ترکی نے لیبیا کی 2 حریف حکومتوں کے ایک گروپ کے ساتھ سمندری سرحد شیئر کرنے کا معاہدہ کرلیا۔

یہی نہیں بلکہ لیبیا میں یہ دونوں ممالک ترکی اور امارات حریف گروہوں کی مدد کرتے ہوئے آمنے سامنے ہیں، لیبیا میں ترکی، اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ فیض السیراج کی گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ (جی این اے) کی پشت پناہی کررہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات، اس اتحاد کا حصہ ہے جو جی این اے کے خلاف لڑنے والے کمانڈر خلیفہ حفتر کا ساتھ دے رہا ہے۔

حال ہی میں لیبیا میں’نامعلوم جنگی طیاروں‘ نے الوطیہ میں ایئر بیس پر حملہ کرکے ترکی کے ایئر ڈیفنس نظام کو تباہ کردیا تھا اور ترکی نے اس حملے پر سخت غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ ترکی کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ ایئربیس کو نشانہ بنانے والے طیارے ڈیسالٹ میراج ہیں جو متحدہ عرب امارات کے پاس ہیں۔ دوسری جانب ایران کی بھی عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ ایک طویل عرصے سے تعلقات خراب چلتے آرہے ہیں۔ ایران، شام اور سعودی عرب اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ یمن میں مخالف گروہوں کی حمایت میں مصروف ہیں۔

سعودی عرب، یمن جنگ میں مسلسل ایران پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک ان کے اتحادی ہیں جبکہ ایران ان دعوؤں کو مسترد کرتا آیا ہے۔