نئی دہلی: بھارت کے نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات جہاں پہلے ہی کھٹائی کا شکار ہیں وہیں اب مویشیوں کی چوری کے الزام میں سرحدی ریاست آسام میں 3 بنگلہ دیشیوں کا قتل اور وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقے وارانسی میں ایک نیپالی شخص کے سر مونڈنے کے واقعے نے اس میں مزید خرابی کا خدشہ پیدا کردیا ہے۔
3 بنگلہ دیشی شہری، جن پر مبینہ طور پر مویشی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا، ان کو 18 جولائی کی درمیانی شب آسام کے جنوبی ضلع کریم گنج میں مقامی لوگوں نے اغوا کرلیا جبکہ سرحد پار سے آنے والے دیگر 4 فرار ہوگئے۔
ضلع کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کمار سنجیت کرشنا نے بتایا کہ یہ واقعہ بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب اور تقریباً پولیس چوکی سے ڈیڑھ کلو میٹر دور پتھرکندی پولیس کے ماتحت بوگریجان ٹی اسٹیٹ میں پیش آیا۔
انہوں نے بتایا کہ تفتیش پر یہ انکشاف ہوا کہ مذکورہ بنگلہ دیشی شہری بوگریجان کے علاقے سے گائے چوری کرنے کے مقصد کے ساتھ سرحد پار کرکے آئے تھے۔ انہوں نے 19 جولائی کو ضلعی ہیڈ کوارٹر کریم گنج سے دی ہندو کو بتایا کہ ‘ان افراد کو شناخت کے بغیر لوگوں کی جانب سے جان سے ماردیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ تینوں افراد سے برآمد شدہ چند اشیا میں بنگلہ دیشی بسکٹس اور روٹی، رسی، بیگ، تاروں اور باڑ کاٹنے والے کٹرز شامل تھے۔
مزید برآں پولیس نے ان تینوں کی لاشیں برآمد کرلیں اور انہیں بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ذریعہ بنگلہ دیشی حکام کے حوالے کرنے کا عمل جاری ہے۔
دی ہندو کے مطابق دو ماہ سے بھی کم عرصے میں ضلع کریم گنج میں اس طرح کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔
اس سے قبل یکم جون کو ایک 43 سالہ بنگلہ دیشی شہری کو بھارت اور بنگلہ دیشی سرحد سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک ٹی اسٹیٹ میں قتل کردیا گیا تھا۔
اس شخص کی شناخت رنجیت منڈا کے نام سے ہوئی تھی اور پولیس نے مقامی لوگوں کے حوالے سے بتایا تھا کہ وہ اس اسٹیٹ میں گائے چوری کرنے کے لیے دیگر تین بنگلہ دیشیوں اور دو بھارتیوں کے ساتھ آیا تھا۔
دریں اثنا رپورٹس کے مطابق بہار کے علاقے کشن گنج میں نیپالی پولیس نے بھارت-نیپال سرحد کے قریب تین افراد پر مبینہ طور پر گولی چلائی جس میں ایک بھارتی شہری زخمی ہوگیا۔
اطلاعات کے مطابق یہ حالیہ دنوں میں بھارت نیپال سرحد پر اس نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا۔
گزشتہ ماہ سرحد کی حفاظت کے ذمہ دار نیپال کی آرمڈ پولیس فورس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بہار کے سیتا مڑھی کے قریب ایک سرحدی مقام پر جھڑپ کے دوران ایک گروپ پر فائرنگ کی تھی جس میں ایک بھارتی ہلاک اور دو زخمی ہوگئے تھے۔
تاہم نیپال اور بہار کے سینئر پولیس افسران نے اسے ایک مقامی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا تعلق دہلی اور کھٹمنڈو کے درمیان سرحدی تنازع سے نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے دی وائر کے مطابق گزشتہ ہفتے نیپال مخالف پوسٹرز اور وارانسی میں نیپالی شہری کو جبری طور پر گنجا کرنے کی خبروں کے بعد نیپال کے سفیر نیلامبر اچاریہ نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ریاست میں نیپال کے شہریوں کی حفاظت کے لیے بات کی تھی۔
ہفتے کے آغاز میں نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے ایک تقریب میں دعوی کیا تھا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہندوستان میں نہیں بلکہ نیپال میں ہوئی تھی۔
ایک دن بعد نیپال کی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک وضاحت جاری کی گئی کہ ان کے الفاظ جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں تھے اور انہوں نے صرف رامائن کے ’ثقافتی جغرافیہ‘ کے بارے میں مزید تحقیق پر زور دیا تھا۔
خیال رہے کہ وارانسی شہر کا نیپال سے گہرا تعلق ہے اور نیپالیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں رہتی ہے جن میں سے بہت سے افراد مندروں میں کام کرتے ہیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے نیپال کے سفیر نیلامبر آچاریہ نے کہا کہ انہیں گزشتہ ہفتے بتایا گیا تھا کہ وارانسی کے للیتا گھاٹ کے پشوپتی ناتھ مندر میں کے پی شرما کے تبصرے کی مذمت کرنے اور بھارت میں نیپالی شہریوں کو دھمکیاں دینے کے پوسٹر لگائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پوسٹر پر ایک چھوٹے سے مشہور گروپ ‘وشوا ہندو سینا‘ کے دستخط تھے۔
بعدازاں اس گروہ کے مطلوب سربراہ نے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں ایک نامعلوم نیپالی شہری کو مونڈے ہوئے سر کے ساتھ دکھایا گیا تھا جس پر ’جے شری رام‘ کالے رنگ سے لکھا ہوا تھا۔
ویڈیو میں دکھایا گیا کہ گروپ کے اراکین نے زبردستی نیپالی شخص سے ‘جے شری رام’ اور ‘بھارت ماتا کی جے’ کے نعرے لگوائے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صبح اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ سے بات کی اور ان سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ نیپالی شہری غیر محفوظ محسوس نہ کریں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے کی جانے والی کارروائی سے مطمئن ہیں اور اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
دی ہندو کے مطابق وارانسی پولیس نے بتایا کہ بھیلوپور پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
مزید برآں سفارتی ذرائع نے کہا کہ دونوں حکومتوں کے مابین تعلقات میں ‘اتار چڑھاؤ’ آسکتا ہے تاہم اس سے ہمسایہ ممالک کی آبادی کے درمیان تعلقات کو ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس قسم کے واقعات میں کوئی مشتعل نہ ہو اور اس کو کسی وائرس کی طرح نہیں پھیلانا چاہیے۔