بھارت کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے سیکیورٹی فورسز کی 100 کمپنیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ‘مرکزی حکومت نے داخلہ امور کی وزارت کی جانب سے سیکیورٹی کا جائزہ لینے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی 100 کمپنیوں کی دستبرداری کا فیصلہ کیا’۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت نے 10 ہزار فوجی جوانوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘حکومت نے یہ فیصلہ کشمیریوں کو پیغام دینے کے لیے کیا ہے’۔
بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز (سی اے پی ایف ایس) کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعیناتی سے متعلق جائزے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی واپسی کے فیصلے کو حتمی شکل دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق ‘سی اے پی ایف کی تقریباً 100 کمپنیوں کو فوری طور پر دستبردار ہوکر واپس ملک میں اپنے متعلقہ مقامات میں چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے’۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع حیثیت دلانے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد سی اے پی ایف ایس کو مقبوضہ وادی میں تعینات کردیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی اے پی ایف کی ایک کمپنی میں تقریباً 100 اہلکار ہوتے ہیں۔
بھارتی وزارت داخلہ نے گزشتہ برس دسمبر میں مقبوضہ جموں و کشمیر سے سی اے پی ایف کی تقریباً 82 کمپنیوں کو واپس بلایا تھا اور اب 100 کمپنیوں کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا، یوں مجموعی طور پر 182 کمپنیاں مقبوضہ کشمیر سے واپس بلائی جاچکی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 100 کمپنیاں رواں ہفتے کے اختتام تک مقبوضہ جموں و کشمیر سے واپس ہوں گی۔
مقبوضہ جموں و کشمیر سے 100 کمپنیوں کی دستبرداری کے بعد بھی وادی میں سی آر پی ایف کی تقریباً 60 بٹالین موجود رہیں گی جو مختلف مقامات پر تعینات ہیں۔ واضح رہے کہ ایک بٹالین میں تقریباً ایک ہزار نفری ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ‘بھارتی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سینئر سیاست دان منوج سنہا کو لیفٹننٹ گورنر تعینات کرنے کے بعد ترقیاتی سرگرمیاں شروع کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے’۔
ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘یکے بعد دیگرے دونوں اقدامات محض اتفاق نہیں ہیں بلکہ عوام کو پیغام دینا ہے کہ حکومت ان کے تحفظات کو دور کرنا چاہتی ہے’۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے پیراملٹری فورسز کی تعیناتی کا مقصد 200 انتہائی تربیت یافتہ جنگجوؤں سے خطے کو واگزار کرانا تھا’۔
مزید کہا گیا کہ ‘گزشتہ ہفتے منعقدہ اجلاس میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے تسلیم کیا تھا کہ فورسز کی تعداد کم ہوسکتی ہے اور خاص کر گزشتہ ایک سال کے دوران سرفہرست کمانڈروں کے خلاف کامیابی کے بعد یہ ممکن ہے’۔
بھارت کی ‘سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ عوام کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر ردعمل میں بھی بہتری آئی ہے’۔
فیصلے سے قبل سیکیورٹی فورسز کی ایک ٹیم نے 15 اگست کو مقبوضہ جموں وکشمیر کا دورہ کیا اور فیلڈ کمانڈروں سے تبادلہ خیال کر کے فورسز کی واپسی کے لیے راستہ ہموار کیا۔
سیکیورٹی ٹیم کے کشمیر پہنچنے سے قبل دہلی کے لال قلعے میں قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس کو مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ ریجن کے حوالے سے ایک سنگ میل سے تعبیر کیا تھا اور حلقہ بندیاں مکمل ہوتے ہی مقبوضہ وادی میں اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
اس عمل سے منسلک رہنے والے ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ‘یہ محسوس کیا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں فورس کی تعیناتی سیکیورٹی صورت حال کو دیکھتے ہوئے غیر متناسب ہے جس سے مقامی لوگوں کے لیے مشکل پیدا ہوسکتی ہے’۔
اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے ساتھ ساتھ بی ایس ایف، سی آر پی ایف، سی آئی ایس ایف اور دیگر فورسز بھی جائزہ لینے کے لیے اجلاس میں شریک تھے’۔
رپورٹ کے مطابق ‘ایک تجویز تھی کہ سری نگر اور دیگر علاقوں میں بہت زیادہ چیک پوسٹوں پر انحصار کے بجائے وادی میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے ٹیکنالوجی نصب کرنی چاہیے’۔
اسی طرح ‘سیکیورٹی فورسز کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کلگام، اننت ناگ اور بارہ مولا کے اضلاع میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے رات کو مزید پیٹرولنگ کی جائے’۔