بھارتی حکومت کی جانب سے متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاجی مرکز پر کاشتکاروں اور احتجاج مخالف گروپ کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مشتعل گروپ کسانوں کے خلاف اور پولیس کی حمایت میں نعرے بازی کر رہا تھا۔
پولیس نے دونوں فریقین کو علیحدہ کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
کسانوں کے رہنماؤں نے مقامی پولیس اور سیاست دانوں پر الزام لگایا کہ وہ کسانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہزاروں کسانوں نے نئی دہلی کے مضافات میں اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے راتوں رات مارچ کیا تھا۔
حکام نے جمعرات کی شب شہر کے مشرق میں ایک احتجاجی مقام کو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن بیشتر کسانوں نے وہاں جانے سے انکار کردیا اور بڑی تعداد میں احتجاج میں شامل ہوگئے۔
کسان یونین کے صدر راکیش تاکیٹ نے کہا کہ پولیس کے سخت رویہ کی وجہ سے ہزاروں کسان جو کہ احتجاج کا حصہ نہیں تھے اب ہماری تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کسانوں کے احتجاج کا باعث بننے والے نئے زرعی قوانین پر سماعت کے لیے پینل تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے قانون پر غیر معینہ مدت تک حکم امتناع جاری کرچکی ہے۔
رواں سال کے شروعات میں قانون سازی کی گئی تھی جس کے مطابق کسانوں کو اپنی فصل ریاست کے مقرر کردہ نرخوں پر مخصوص مارکیٹس میں فروخت کے بجائے اپنی مرضی سے کسی کو بھی کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کی آزادی ہوگی۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اسے ‘زراعت کے شعبے میں مکمل تبدیلی’ قرار دیتے ہوئے سراہا تھا جو کہ ‘لاکھوں کسانوں’ کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری سرمایہ کاری اور جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
تاہم بھارتی پنجاب میں حکومت کرنے والی اور اپوزیشن کی اہم جماعت کانگریس نے اس احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے بحث کی کہ اس تبدیلی نے کسانوں کو بڑی کارپوریشن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کا کہنا تھا کہ ‘تقریباً 2 ماہ سے پنجاب میں کسان کسی مسئلے کے بغیر پرامن احتجاج کر رہے تھے’۔
خیال رہے کہ بھارتی حکومت کو درپیش اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومتی عہدیداران اور کسانوں کی یونین کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے 6 ادوار ناکام ہوچکے ہیں۔