بھارت کے چیف جسٹس نے ملک کے ممتاز وکیل اور شہری حقوق کے کارکن پرشانت بھوشن پر توہین عدالت کے مرتکب ہونے پر ایک روپے کا علامتی جرمانہ عائد کردیا۔ اس حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبدے نے کہا کہ اگر وہ 15 ستمبر تک جرمانہ ادا نہیں کرتے تو انہیں 3 ماہ قید یا 3 سال کی پابندی کا سامنا کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے سزا سناتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے عدالت اور پرشانت بھوشن کو دیے گئے ‘سمجھدار مشورے’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے کو کم نہیں کیا جاسکتا۔
پرشانت بھوشن کو یہ سزا رواں برس جون میں کیے گئے 2 ٹوئٹس پر سنائی گئی جس پر بھارتی سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا۔
جولائی میں سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹوئٹس سپریم کورٹ کے ‘وقار اور اختیار کو پامال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں’۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ وہ جرمانہ ادا کرنے یا دیگر آپشنز کا مقابلہ کرنے سے متعلق ‘اجتماعی فیصلہ’ لیں گے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ، جس نے وکیل سے غیر مشروط معافی مانگنے کا کہا تھا، نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم نے پرشانت بھوشن کو معافی مانگنے کے لیے بہت سارے مواقع دیے اور حوصلہ افزائی کی لیکن انہوں نے دوسرے بیان کی نہ صرف وسیع تشہیر کی بلکہ پریس کو مختلف انٹرویوز بھی دیے۔
سپریم کورٹ نے بظاہر پرشانت بھوشن کے اس بیان کا تذکرہ کیا تھا جس میں انہوں نے اپنا بیان واپس لینے یا معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے ‘سب سے بڑے فریضے’ سے خارج ہونا سمجھتے ہیں اور معافی مانگنا ان کے ضمیر اور عدالت کی توہین ہوگی۔
پرشانت بھوشن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جمہوریت اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لیے کھلی تنقید ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ بیان آزادانہ عدالتی افعال پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ اظہار رائے کی آزادی اہم ہے اور دوسروں کے حقوق کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ 14 اگست کو بھارتی سپریم کورٹ کے 3 ججز نے فیصلہ کیا تھا کہ ٹوئٹس سے عدالت کا اختیار مجروح ہوا۔
108 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے ٹوئٹس کو عدلیہ کے ادارے کی بنیاد پر ایک بدنیتی پر مبنی، مذموم، طے شدہ حملہ قرار دیا تھا کہ اسی طرح اس سے جمہوریت کی بنیاد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کے خلاف 11 سال پرانے توہین عدالت کیس کی حتمی سماعت شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔
پرشانت بھوشن کے خلاف 2009 کا کیس نیوز میگزین میں عدلیہ میں کرپشن سے متعلق ریمارکس کے حوالے سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ توہین عدالت سے متعلق عدالتی احکامات ‘بکھرے ہوئے’ اور متضاد ہیں۔
یاد رہے کہ انہوں نے عدالت میں جمع کرائے گئے 142 صفحات پر مشتمل جواب میں اپنے ٹوئٹس کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ جمہوریت خطرے میں ہونے کی علامتوں کی نشاندہی خود سپریم کورٹ کے ججز نے کی ہے۔
دوسری جانب پرشانت بھوشن کے خلاف اس فیصلے پر 3 ہزار کے قریب افراد کی جانب سے احتجاج کیا گیا جن میں بھارت کے صف اول کے وکلا، ایک درجن ریٹائرڈ ججز اور نامور شخصیات کی جانب سے فیصلے پر تنقید کی گئی۔