بھارت اور چین نے وزرائے دفاع کے اجلاس کے بعد سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ واضح رہے کہ جوہری صلاحیت کے حامل دونوں ممالک نے جون میں ہونے والے ایک جھڑپ کے بعد مغربی ہمالیہ کے راستے سے گزرنے والی سرحد کے ساتھ اضافی دستے تعینات کیے تھے جس کے دوران بغیر کسی اسلحے کے ہونے والی لڑائی میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
دوسری جانب چین نے اپنی فوج کے جانی نقصان کے اعدادوشمار جاری نہیں کیے۔ ٖغیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مئی میں سرحد پر کشیدگی میں اضافے کے بعد بھارت اور چین کے درمیان اعلیٰ سطح کے سیاسی روابط کے سلسلے میں بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور چین کے جنرل وی فینگی نے جمعہ کے روز ماسکو میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر آمنے سامنے ملاقات کی۔
بھارتی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہے کہ ‘کسی بھی فریق کو کوئی مزید ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہیے جس سے یا تو صورتحال مزید پیچیدہ بنے یا سرحدی علاقوں میں معاملات کشیدہ ہوں’۔
چین کی وزارت دفاع نے اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اس اجلاس کے بارے میں ایک خبر میں کہا کہ جنرل وی فینگی کا کہنا تھا کہ فریقین کو امن و استحکام کو فروغ دینا چاہیے اور موجودہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا ‘حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار مکمل طور پر بھارت ہے’ مگر چین اپنی قومی خودمختاری اور علاقے کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔
چین نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی صف اول کی افواج کا کنٹرول مضبوط بنائے، اشتعال انگیز کارروائیوں سے باز رہے اور ‘جان بوجھ کر ڈھول پیٹنے اور منفی معلومات کو پھیلانے سے باز رہے’۔
خیال رہے کہ کئی ماہ سے مغربی ہمالیائی حصے میں فوجیں موجود ہیں جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف وزری کا الزام لگاتے ہیں۔
قبل ازیں 20 جون کو گالوان وادی میں کشیدگی کے دوران 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹنے پر رضامند ہوئے تھے۔
تاہم مذاکرات کے کئی دور کے باوجود مختلف مقامات پر فوجیں آمنے سامنے ہیں جس میں انتہائی بلندی کا مقام پیانگونگ تسو جھیل بھی شامل ہے جس کے بارے میں دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں۔