امریکی سفیر کی امن مذاکرات سے قبل ملا برادر، حقانی سے ملاقات

افغانستان مفاہمتی عمل کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغان حکومت کی نمائندگی کرنے والی ٹیم سے امن مذاکرات کی وجہ سے طالبان مذاکرات کاروں کی نئی ٹیم کے سربراہ کے ساتھ دوحہ میں ملاقات کی ہے۔ یہ مذاکرات امریکا اور طالبان کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں 5 ہزار قیدیوں کی رہائی میں سے آخری نصف درجن کی رہائی کے بعد دوحہ میں شروع ہونے ہیں۔

توقع کی جارہی تھی کہ افغان مذاکرات کاروں کی ٹیم رواں ہفتے کابل سے دوحہ کے لیے اڑان بھرے گی تاہم وہ افغان حکومت کی طرف سے اس اشارے کے منتظر ہیں کہ رہائی، جس پر مغربی حکومتوں نے اعتراض کیا ہے، کب عمل میں آئے گی۔

طالبان کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے نئے سربراہ عبدالحکیم حقانی نے پیر کے روز زلمے خلیل زاد کے علاوہ قطر کے نائب وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ملاقات میں قیدیوں کی رہائی اور بین الافغان مذاکرات کے فوری آغاز سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا’۔

واضح رہے کہ امریکی حکام کے ساتھ گزشتہ دو سالوں سے مذاکرات ٓکی قیادت طالبان کی جانب سے ملا برادر نے کی تھی اور انہوں نے رواں سال کے آغاز میں واشنگٹن کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس سے بین الاقوامی فوجیوں کے افغانستان سے انخلاء اور انٹرا افغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

تاہم گزشتہ ہفتے طالبان کے اعلی رہنما حبیب اللہ آخونزادہ نے اعلان کیا تھا کہ طالبان کے شریک بانی ملا برادر کے بجائے عبدالحکیم حقانی کی سربراہی میں 21 رکنی ایک نئی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔

افغانستان میں مقیم تین طالبان کمانڈروں نے رائٹرز کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں زمین پر موجود سینئر جنگجوؤں نے مذاکرات میں ملا برادر کے غلبے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کو موقع پر فیصلے کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔

دو سینئر طالبان عہدیداروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے سابق شیڈو چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی، مذہبی اسکالرز کی اپنی ایک طاقتور کونسل کے سربراہ بھی ہیں۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ حبیب اللہ اخونزادہ نے عبدالحکیم حقانی پر گروپ کے کسی اور سے زیادہ اعتماد کیا۔ عہدیدار نے کہا کہ ‘ان کی موجودگی کا بنیادی طور پر مطلب یہ ہے کہ ہمارا سپریم لیڈر خود ہی امن مذاکرات میں شرکت کرے گا’۔

کابل سے امن عمل کے بعد آنے والے ایک سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ ‘ملا برادر اثر انداز ہوسکتے ہیں لیکن عبدالحکیم اللہ حقانی سینئر ہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک اور مستند ٹیم بنانے کے لیے کیا گیا ہے جو وہاں فیصلہ لے سکتی ہے’۔