چین اور امریکا کے درمیان کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی ہے اور امریکا نے دانشوارنہ املاک اور معلومات کے تحفظ کے لیے چین کو ہاؤسٹن میں موجود قونصلیٹ تین دن میں بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق چین نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے اور ذرائع کے مطابق چین نے جوابی کارروائی کے طور پر ووہان میں امریکی سفارتخانے کی بندش پر غور شروع کردیا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان پہلے سے خراب تعلقات رواں سال کے آغاز میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد مزید شدت اختیار کر گئے تھے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ہاؤسٹن میں چینی قونصلیٹ کی بندش کی تصدیق کی جہاں اس سے قبل چین کی وزارت خارجہ نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں قونصلیٹ کی بندش کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی مورگن اورٹاگس نے اپنے بیان میں کہا کہ بندش کے احکامات امریکی دانشورانہ املاک اور نجی معلومات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ جس طرح سے ہم نے پی آر سی کی غیرشفاف تجارتی پالیسیوں، امریکی نوکریوں کی چوری اور دیگر متفرق رویوں کو برداشت نہیں کیا تھا، بالکل اسی طرح ہم اپنی خودمختاری اور عوام کو جانے والی دھمکیوں کے تناظر میں پبلک ریسورڈ کوڈ(پی آر سی) کی خلاف ورزی بھی برداشت نہیں کریں گے۔
دونوں ملکوں کے درمیان حال ہی میں تجارت، ٹیکنالوجی، ہانگ کانگ میں لاگو نیشنل سیکیورٹی قانون اور جنوبی چین کے سمندر پر چین کے دعوے کے معاملے پر تنازعات ہو چکے ہیں۔
چین نے امریکا کے اس اقدام کو اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
چین کے وزارت خارجہ کی ترجمان وینگ وین بن نے کہا کہ ہاؤسٹن میں چینی قونصل خانے کی مختصر وقت میں بندش کا یکطرفہ فیصلہ چین کے خلاف ایک ایسی اشتعال انگیزی ہے جس کی حالیہ عرصے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس گلط فیصلے کو واپس لے، اگر انہوں نے اس غلط راہ پر چلنے کا سلسلہ جاری رکھا تو چین ٹھجوس اقدامات کے ساتھ اپنا ردعمل دے گا۔
وینگ وین بن نے کہا کہ امریکی حکومت چینی سفارتکاروں اور قونصل خانے کے عملے کو ایک عرصے سے ہراساں کر رہی ہے جبکہ وہ چینی طلبا کو دھمکاتے ہوئے ان سے تفتیش کر رہی ہے اور انہیں حراست میں لیے جانے کے ساتھ ساتھ ان کی ڈیوائسز بھی ضبط کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قونصل خانے میں معمول کے مطابق کام کیا جا رہا تھا لیکن انہوں نے منگل کی رات ہاؤسٹن میں قونصلیٹ کے احاطے میں دستاویزات جلائے جانے کے حوالے سے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ہاؤسٹن کے فائر ڈپارٹمنٹ کے سربراہ سیمیول پینا نے بتایا کہ چینی قونصل خانے کے احاطے میں موجود کنٹینر میں آگ لگی ہوئی تھی، یہ آگ ایک جگہ تک محدود نہیں تھی لیکن ہمیں وہاں تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی۔
ہاؤسٹن پولیس کے مطابق ہم وہاں موجود تھے اور صورتحال کو دیکھ رہے تھے، عملہ دستاویزات جلا رہا تھا کیونکہ انہیں جمعے کی دوپہر اس عملرت سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔
منگل کو ہی امریکی محکمہ انصاف نے ایک دہائی پرانے سائبر جاسوسی کے الزام میں دو چینی افراد پر فرد جرم عائد کردی ہے جہاں ان دونوں افراد پر اسلحے کے ڈیزائن، منشیات کی معلومات، سافٹ ویئر کی سورس کوڈ اور ذاتی ڈیٹا چوری کرنے کا الزام تھا۔