امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان فوج لڑنا نہیں چاہتی تو اس میں امریکا کچھ نہیں کر سکتا، ہم نے انہیں ہتھیار اور 20 سال تک ہر طرح کی تربیت دی، افغان فوجیوں کی تنخواہیں تک ہم ادا کرتے رہے۔
وائٹ ہاؤس میں نیوز بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہ ہم نے افغان صدر اشرف غنی سے کہا تھا کہ طالبان سے لڑنے کے بجائے مذاکرات کریں لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں مانی، امریکی فوج افغان فورسز کے لیے وہ کام نہیں کرسکتی جو وہ خود اپنے لیے کرنا ہی نہیں چاہتی، ہمارا افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ بالکل درست ہے اس پر تنقید نہ کی جائے اور نہ ہی ہمیں افغان جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کسی قسم کی شرمندگی ہے۔
جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ افغان قیادت طالبان کا مقابلہ کرنے کے بجائے ملک چھوڑ کر فرار ہوگئی، ہمیں افغان حکومت کے تیزی سے خاتمے پر حیرت ہے، ہم نے افغانستان سے اپنا عملہ بلا کر سفارت خانہ بند کردیا ہے لیکن اگر طالبان نے ہمارے مفادات پر حملہ کیا تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے، ضرورت پڑی تو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف فوری ایکشن لیں گے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’20 سال قبل ہم افغانستان ایک واضح مقصد کے ساتھ گئے تھے، 11 ستمبر 2011ء کو ہم پر حملہ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ القاعدہ دوبارہ ہم پر حملہ کرنے کے لیے افغانستان کو بنیاد نہ بنائے اور ہم نے یہ کیا، ہم نے بہت شدت سے القاعدہ کو انحطاط پذیر کیا، ہم نے کبھی بھی اسامہ بن لادن کی تلاش ختم نہیں کی اور آخر کار ایک دہائی قبل اسے پکڑا، افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی نیشن بلڈنگ نہیں تھا۔
امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان پر جتنی تیزی کے ساتھ قبضہ ہوا ہمیں اس کی امید نہیں تھی، ہماری فورسز تیار ہیں افغانستان میں رہنے والی تمام امریکی باشندوں کو واپس وطن لایا جائے گا، ہم نے امریکی اور اتحادی ممالک کے باشندوں کے انخلا کے لیے چھ ہزار فوجی روانہ کردیے ہیں۔
جوبائیڈن نے مزید کہا کہ چین اور روس کی خواہش ہوگی کہ امریکا افغانستان میں مزید اربوں ڈالر خرچ کرتا رہے لیکن یہ ہماری خواہش نہیں، امریکی افواج کے انخلاء کی وجہ سے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن میں اپنے فیصلے پر قائم ہوں۔