نارتھ اٹلانٹک ٹریئٹی آرگنائزیش (نیٹو) نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے میں طے پانے والی ڈیڈلائن مئی کے بعد بھی افغانستان میں غیر ملکی افواج موجود رہیں گی۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق نیٹو عہدیدار نے کہا کہ ‘اپریل کے اختتام تک اتحادی افواج کا مکمل انخلا نہیں ہوگا’۔
رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے بعد طالبان اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جلد بازی میں دستبرداری کا جو تاثر موجود تھا اس کو ختم کر دیا جائے گا اور ہم انخلا کی مزید مؤثر حکمت عملی دیکھ سکتے ہیں’۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ قطر کے شہر دوحہ میں ہوا تھا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ سیکیورٹی ضمانت، افغان حکومت کے ساتھ عسکریت پسندوں کی مکمل جنگ بندی کے بدلے مئی 2021 تک تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔
نیٹو ذرائع کا کہنا تھا کہ اپریل کے بعد کیا ہوگا اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے اور فروری میں نیٹو اجلاس میں ممکنہ طور پر یہ معاملہ سرفہرست رہے گا۔
ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اتحادیوں کو الگ کرنے کے بعد نیٹو کی پوزیشن اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ ستمبر 2020 میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات بھی شروع ہوچکے ہیں۔
نیٹو ترجمان اوانا لونگیسکو کا کہنا تھا کہ ‘نیٹو کا کوئی اتحادی بغیر ضرورت کے مزید ٹھہرنا نہیں چاہتا لیکن ہم واضح کر چکے ہیں کہ ہماری موجودگی حالات کی بنیاد پر ہوگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اتحادی حالات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اور اگلے لائحہ عمل پر مشاورت کی جائے گی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان میں امریکیوں سمیت تقریباً 10 ہزار فوجی موجود ہیں۔
نیٹو ذرائع کا کہنا تھا کہ ‘ایک اندازے مطابق مئی کے بعد بھی یہی تعداد برقرار رہے گی لیکن اس کے بعد کا منصوبہ واضح نہیں ہے’۔
افغان حکومت اور متعدد غیرملکی حکومتی کہہ چکی ہیں کہ طالبان کشیدگی کم کرنے کے وعدے کو پورا کرنے اور القاعدہ سمیت دیگر انتہاپسند گروپوں سے تعلق ختم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں جبکہ طالبان اس تاثر کو مسترد کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکا میں 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ لینے والی جوبائیڈن انتظامیہ نے سابق صدر کے امن معاہدے کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جبکہ واشنگٹن اپنے وعدے پر قائم ہے اور مستقبل میں فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا گیا۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نمائندے کا کہنا تھا کہ جوبائیڈن جنگ کے ہمیشہ کے لیے ذمہ دارانہ خاتمے کا عزم رکھتے ہیں جبکہ امریکیوں کا دہشت گردوں اور دیگر خطرات سے تحفظ بھی کریں گے۔
افغان حکومت نے نیٹو کے تازہ بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
قبل ازیں افغان طالبان نے دو روز قبل امریکا پر الزام عائد کیا تھا کہ واشنگٹن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔
قطر میں موجود طالبان کے ایک ترجمان محمد نعیم نے کہا تھا کہ امریکا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور تقریباً ہر روز وہ اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ عام شہریوں، گھروں اور دیہاتوں پر بمباری کر رہے ہیں اور ہم نے وقتا فوقتا انہیں آگاہ کیا ہے یہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکا کے الزامات بے بنیاد ہیں اور طالبان معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کررہے ہیں۔
افغانستان میں جاری جنگ میں2001 سے 2020 کے درمیان 3 ہزار 500 اتحادی مارے گئے، جن میں سے 2 ہزار 400 امریکی اور باقی نیٹو میں موجود دیگر اقوام کے افراد تھے، مزید یہ کہ تقریباً 20 ہزار سے زائد امریکی اس 19 سال کی طویل جنگ میں زخمی ہوئے۔
اس کے علاوہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے لیے امریکا نے مجموعی طور پر 975 ارب ڈالر خرچ کیے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ طوالت اور نقصانات کی وجہ سے یہ جنگ امریکا کی تاریخ کی غیر مقبول ترین جنگ بن گئی ہے اور 2008 کے بعد سے ہر صدارتی امیدوار اس تنازع کو جلد از جلد ختم کرنے کا وعدہ کرتا رہا ہے۔