متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کابینہ نے اسرائیل کے شہر تل ابیب میں سفارت خانے کے قیام کی منظوری دے دی۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے اگست میں سفارتی تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے میڈیا میں سفارت خانے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے۔
دوسری جانب زیادہ تر ممالک کے تل ابیب میں اپنے سفارت خانے موجود ہیں۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ علاقائی سلامتی کے امور اور ملک کے علاقائی معمول کے معاہدوں پر اتفاق رائے سے کام کرے گی۔
انہوں نے اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ ملاقات میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے والے انتظامات کی کامیابی کو مزید فروغ دینے سمیت آئندہ مہینوں میں شراکت کو بڑھانے کے مواقع پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکی عہدیدار نے قلیل مدتی اسٹریٹجک بات چیت شروع کرنے کی دعوت میں توسیع کا عندیہ دیا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے دوطرفہ ویزا فری سفر کے معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
اس پیش رفت کے بعد اب اماراتی، عرب دنیا میں پہلے شہری ہوں گے جنہیں اسرائیل میں داخل ہونے کے لیے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے گزشتہ برس اگست میں اعلان کیا تھا کہ وہ تعلقات کو معمول پر لائیں گے جبکہ حکومتی سطح پر بینکنگ، کاروباری معاہدوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طویل مدت سے جاری بائیکاٹ کو ختم کریں گے۔
بعدازاں قریبی ملک بحرین نے بھی 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے یو اے ای کے ساتھ مل کر معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین وہ تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں جبکہ مصر اور اردن بالترتیب 1979 اور 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں۔