چین کا پابندیوں پر ردعمل، امریکی سینیٹرز پر پابندی کا اعلان

چین نے اعلان کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے معاملے پر امریکا کی پابندیوں کے جواب میں وہ سینیٹرز سمیت 11 اعلیٰ امریکی عہدیداروں پر پابندی عائد کر رہا ہے۔

چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جان نے بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکا کے محکمہ خارجہ کی جانب سے چینی حکومت کے 11 عہدیداروں پر پابندی ہانگ کانگ اور چین کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘امریکا کے اس طرح کے اقدامات بین الاقومی قانون اور بنیادی عالمی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور چین اس کو یکسر مسترد اور مذمت کرتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس پابندی کا اطلاق آج سے ہوگا’۔

چینی پابندی کا شکار ہونے والے افراد میں 5 امریکی سینیٹرز مارکو روبیو، ٹیڈ کروز، جوش ہاؤلے، ٹومکوٹن اور پیٹ ٹومی شامل ہیں۔

دیگر اعلیٰ عہدیداروں میں نیشنل انڈوومنٹ فار ڈیموکریسی، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ، انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے صدور اور ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور فریڈم ہاؤس کے صدر شامل ہیں، جن پر چین نے پابندی لگادی ہے۔

ژاؤ لی جان نے کہا کہ میں زور دے کر کہوں گا کہ ہانگ کانگ میں ایک ملک دو نظام کامیاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ کے شہری مثالی جمہوریت اور قانون کے مطابق حقوق اور آزادی سے محظوظ ہو رہے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے جس کو کوئی بھی غیر جانبدار شخص نہیں جھٹلا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی وقت میں ملک میں دو نظام پر عمل درآمد کے لیے نئے خطرات اور مشکلات بھی ہیں، جن میں سب سے اہم قومی سلامتی کے خطرات ہیں۔

چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ جب ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کو حقیقی خطرات کا سامنا تھا اور حکومت کو قانون سازی میں مشکل ہو رہی تھی تو مرکزی حکومت نے فیصلہ کن اقدامات اٹھائے اور ہانگ کانگ کی سلامتی کے لیے قانونی نظام اور اس کے نفاذ کا طریقہ کار مرتب کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ میں نیشنل سیکیورٹی قانون مٹھی بھر جرائم پیشہ افراد کو نشانہ بنارہا ہے جنہوں نے قومی سلامتی کو داؤ پر لگایا ہے اور قانون پر عمل کرنے والے ہانگ کانگ کے شہریوں کی حفاظت کرتا ہے جو اکثریت میں ہیں۔

ژاؤلی جیان نے کہا کہ ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے اور اس کے معاملات مکمل طور پر چین کے اندرونی امور ہیں، جس میں بیرونی مداخلت کی کوئی اجازت نہیں ہے۔

ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کو سدھارے اور فوری طور پر ہانگ کانگ اور چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔

خیال رہے کہ امریکا کے محکمہ خارجہ اور محکمہ قانون نے ہانگ کانگ کے حوالے سے اقدامات پر چین کی مرکزی حکومت کے 11 عہدیداروں پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس سے قبل امریکا نے 27 جون کو ہانگ کانگ کی ‘آزادی اور خودمختاری’ پر قدغن لگانے کے الزام میں چین کے متعدد عہدیداروں پر ویزا کی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔

امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے بیان میں کہا تھا کہ ‘میں موجودہ اور سابق چینی حکام پر ویزا پابندیوں کا اعلان کر رہا ہوں جنہوں نے ہانگ کانگ کی خودمختاری کو نظر انداز کیا، جو چین اور برطانیہ کے مابین 1984 کے معاہدے میں درج تھا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘چین نے ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی پامالی کی اور آزادی کے بنیادی حق کو تسلیم نہیں کیا’۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ پابندیوں کی زد میں آنے والے چینی عہدیداروں کے اہل خانہ پر بھی ویزا پابندیوں کا اطلاق ہوگا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس ہانگ کانگ میں جمہوریت کے لیے احتجاج کرنے والوں کے حق میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا جس سے ہانگ کانگ کو دنیا کی بڑی معیشت سے تجارت کی اجازت دی گئی تھی۔

برطانیہ نے چین کی جانب سے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کے قانون کے نفاذ پر ردعمل دیتے ہوئے ہانگ ہانگ کے شہریوں کو شہریت دینے کا عندیہ دیا تھا۔

چین نے جواب میں برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ ہانگ کانگ میں مداخلت کی صورت میں اسے مناسب ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکا اور برطانیہ کی معاملے پر تنقید سے چین مشتعل نظر آتا ہے اور ناقدین کا خیال ہے کہ قانون کے نفاذ سے نیم خود مختار ہانگ کانگ کی محدود آزادی ختم ہوجائے گی۔

امریکا نے چین کی جانب سے ہانگ کانگ کی خود مختاری کے خاتمے کے فیصلے پر دھمکی دی تھی کہ خصوصی تجارتی حیثیت ختم کردی جائے گی۔

خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں ‘ایک ملک، دو نظام’ فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خود مختاری حاصل ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرے کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو واضح کردیا تھا۔

ہانگ کانگ میں اس احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہوگئے تھے۔

شدید احتجاج کے بعد ہانگ کانگ کے شہریوں کو ٹرائل کے لیے چین بھیجنے کی اجازت دینے والے قانون کو واپس لے لیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود احتجاج کئی ماہ تک جاری رہا تھا جس میں حقوق کے لیے ووٹنگ کرانے اور پولیس کی پرتشدد کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے شامل تھے۔