مقبوضہ کشمیر میں نئے لیفٹیننٹ گورنر کی تعیناتی

بھارت کی وفاقی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی قیادت کے لیے جمعرات کے روز ٹیلی کمیونکیشن کے ایک سابق وزیر کو لیفٹیننٹ گورنر کے لیے نامزد کردیا۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں کے نام پر نئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمراں جماعت کے رہنما منوج سنہا، بیوروکریٹ جی سی مرمو کی جگہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے تعینات ہوں گے۔

یہ تقرر ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکام نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ متنازع خطے کی آئینی خودمختاری کو منسوخ کرنے کے اقدام کو ایک سال مکمل ہونے پر پولیس کی بھاری تعیناتی اور عوامی نقل و حرکت پر پابندی کے ذریعے یہ دن بغیر کسی بڑے احتجاج کے گزر جائے۔

ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ‘اسے اپنی رہائش گاہ کے باہر متعدد گولیاں ماری گئیں’۔

اس دوران بھارتی افواج نے متعدد سڑکوں، پلوں اور چوراہوں پر اسٹیل کے باڑ اور ریزر وائرز لگائے۔

دکانیں اور کاروبار بند رہے اور پولیس اور فوجیوں نے چوکیوں پر رہائشیوں کو روکا اور صرف معمول کی گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کو گزرنے کی اجازت دی۔

متعدد رہائشیوں نے بتایا کہ فوج نے انہیں چوکیوں پر روک دیا اور کہا کہ کرفیو ابھی بھی موجود ہے۔

سری نگر کے ایک رہائشی اشفاق احمد نے کہا کہ ‘آپ اسے کرفیو یا وائرس لاک ڈاؤن کہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک وحشیانہ محاصرے میں ہیں اور یہ محاصرہ ایک سال پرانا ہے’۔

یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر سے ریاست کی خصوصی حیثیت واپس لے لی تھی اور اس کے آئین کو ختم کردیا تھا اور مقامیوں کی زمین اور روزگار کی حفاظت کا وراثتی حق بھی ان سے لے لیا تھا۔

بدھ کے روز چین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے اُمید ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے بیجنگ میں بریفنگ کے دوران کہا کہ ‘چین کشمیر کی صورتحال پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے، کشمیر میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ تبدیلی غیر قانونی اور ناجائز ہے’۔

بعد ازاں بھارتی وزارت خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ ‘اس معاملے سے چین کا کچھ لینا دینا نہیں ہے’ اور انہوں نے چین کو تجویز دی کہ وہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات پر تبصرہ نہ کریں’۔