5 اگست 2019 کے بھارت کے یکطرفہ اقدام کے باعث سوا کروڑ کشمیری بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے مسلمان اکثریتی ریاست کشمیر کی جداگانہ حیثیت آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا جسے آج ایک برس مکمل ہوگیا جس کے بعد سے سوا کروڑ کشمیری محاصرے میں رہنے پر مجبور ہیں اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
اس ایک برس کے عرصے میں عالمی دباؤ کے باعث بھارتی حکام نے کچھ پابندیاں ہٹانے کا دعویٰ کیا جن میں کچھ موبائل سروسز کی بحالی اور سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹانا شامل ہے تاہم 5 اگست سے قبل ہی بھارتی حکام نے مقبوضہ وادی میں پھر کرفیو نافذ کردیا تھا۔
تاہم مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے زندگی انتہائی مشکلات کا شکار رہی ہے جہاں سیکڑوں چیک پوائنٹس موجود ہیں، انٹرنیٹ کی بندش ہے اور کورونا وائرس لاک ڈاؤن نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
اس ایک سال کے عرصے میں کشمیریوں کے خلاف سیکیورٹی آپریشنز میں تیزی آئی اور 2020 کچھ عرصے کے لیے خونی سال ثابت ہوا۔
رواں برس جولائی میں جموں اینڈ کشمیر سول سوسائٹی اتحاد کی رپورٹ کے مطانق مقبوضہ کشمیر میں جنوری سے جولائی تک 229 کشمیریوں سے جینے کا حق چھینا گیا اور 100 ملٹری آپریشنز ہوئے، 55 انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز ہوئے اور 48 عمارتوں کا تباہ کیا گیا۔
علاوہ ازیں اس ایک سال کے عرصے میں بھارت نے ہزاروں افراد کو مقبوضہ کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت بھی دی ہے جسے ناقدین اور رہائشیوں کی جانب سے خطے کی اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔
5 اگست 2019 سے لے کر ان 365 دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر کیا مظالم ڈھائے گئے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
اگست 2019
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل 2 اگست کو بھارتی حکومت نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر مقبوضہ کشمیر میں آئے سیاحوں کو واپس جانے کی ہدایت کی تھی جبکہ اضافی نفری کے ساتھ سیکیورٹی کے دیگر اقدامات کے باعث کشمیری عوام میں خوف اور تشویش کی لہر بھی پیدا ہوگئی تھئ۔
5 اگست 2019 کو بھارتی صدر رام ناتھ کووِند نے آئین میں موجود مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بل پر دستخط کیے تھے اور مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا اور لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا تھا۔
8 اگست تک مقبوضہ کشمیر نے 5 اگست سے لے کر صرف 3 روز میں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 500 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا تھا جس کے اگلے روز بھارتی پولیس نے سری نگر میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف مظاہرے کرنے والے 10 ہزار کشمیریوں پر آنسو گیس اور پیلیٹ گنز برسائی تھیں۔
14 اگست کو پاکستان نے اپنا 73واں یومِ آزادی ‘یومِ یکجہتی کشمیر’ کے طور پر منایا تھا اور اسے کشمیریوں کے نام کیا تھاجبکہ 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کو پاکستان میں ملک گیر سطح پریومِ سیاہ طور پر منایا گیا تھا بھارتی اقدام کے خلاف اور کشمیر سے یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے گئے تھے۔
جس کے بعد 16 اگست کو 50 برس میں پہلی مرتبہ 1965 کے بعد پاکستان کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اہم اور ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا تھا جو مقبوضہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینے کے بھارتی دعوے کو مسترد کردیا تھا۔
علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر کے مقامی مجسٹریٹ نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی اور اے پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت کم از کم 4 ہزار شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔
23 اگست کو ضلع سورا میں مظاہروں کو 3 ہفتے کے بعد بھارتی فورسز نے احتجاج کے طور پر پتھر برسانے والے شہریوں پر آنسو گیس کا استعمال کیا تھا جس کے کچھ دن بھارت نے اپوزیشن جماعت سے وابستہ سیاستدانوں کو مقبوضہ وادی کے دورے سے روک دیا تھا ۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں محصور کشمیریوں پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم کی نئی داستانیں سامنےآئی تھیں، برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں لوگوں نے بھارتی سیکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کا الزام لگایا تھا۔
ستمبر 2019
لندن میں ہزاروں افراد نے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا تھا۔
5 ستمبر کو انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ طویل لاک ڈاؤن کے انسانی نقصان کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی مہم کا آغاز کیا تھا۔
جس کے بعد 15 ستمبر کو بھارتی حکومت کے سینئر ذرائع نے بتایا کہ 5 اگست سے لے کر مواصلاتی بندش، کرفیو کے باوجود 15 ستمبر تک یومیہ اوسطاً 20 مظاہرے ہوئے تھے اور اس دوران 722 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
کرفیو کے باعث مقبوضہ کشمیر کی معیشت کے نقصان کی رپورٹس سامنے آئے تھیں اور بندشوں کے باعث بھارت اور بیرون ملک کشمیری سیبوں کی برآمد بھی تعطل کا شکار ہوئی تھی۔
27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی اقدامات کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے عالمی برادری کو بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے کچھ غلط کیا تو ہم آخر تک لڑیں گے اور اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
اس موقع پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی قراردوں کے بعد کشمیر پر قبضہ کیا گیا ہے جبکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے 72 برس سے حل طلب مسئلہ کشمیر پر توجہ دینے میں ناکامی پر عالمی برادری پر تنقید کی تھی۔
اکتوبر 2019
بھارتی سیکیورٹی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں اکتوبر کے مہینے میں مزید گرفتاریاں کیں، جہاں 5 اگست سے لے کر یکم اکتوبر تک 9 سال کے لڑکے سمیت 144 نو عمر لڑکوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
اسی ماہ بھارتی انتظامیہ نے نیشنل کانفرنس جماعت کے وفد کو پارٹی صدر فاروق عبداللہ اور نائب صدر عمر عبداللہ سے ملاقات کی اجازت دی تھی۔
بعدازاں بھارت مخالف مظاہروں کے باعث 15 اکتوبر کو فاروق عبداللہ کی بیٹی اور بہن سمیت 12خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا۔
جس کے بعد کشمیری عوام کے بائیکاٹ اور حریت قیادت کے قید میں ہونے کے باوجود مقبوضہ وادی میں انتخابات ہوئے تھے اور 29 اکتوبر کو یورپی پارلیمنٹ کے 30 کے قریب اراکین نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا۔
31 اکتوبر کو 5 اگست کو کیے گئے فیصلے پر باقاعدہ عملدرآمد کے بعد مقبوضہ کشمیر اپنے پرچم اور آئین سے بھی محروم ہوگیا تھا۔
نومبر 2019
3 نومبر کو پاکستان نے بھارت کی جانب سے جاری کردہ نئے ‘سیاسی نقشے’ کو مسترد کرتے ہوئے نئی دہلی کے اقدام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
12نومبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا غیر قانونی محاصرے کو روز مکمل ہوئے تھے اور اس روز درجنوں صحافیوں انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف خاموش احتجاج کیا تھا اور اس دوران مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
اسی ماہ صدر مملکت عارف علوی نے سابق بھارتی فوجی افسر کے کشمیری خواتین کے ریپ کی وکالت کرنے والے بیان کو ’ذلت آمیز‘ قرار دیا تھا۔
25 نومبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے بھارتی وفد کو سری نگر سے باہر جانے سے روک دیا گیا تھا۔
دسمبر 2019
دسمبر کے مہینے میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق امریکی کانگریس میں ایک قراردار منظور ہوئی، تھی۔
جس کے بعد20 دسمبر کو بھارتی وزیر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق تنقید پر امریکی قانون سازوں سے ملاقات منسوخ کردی تھی۔ 31 دسمبر کو بھارت نے مقبوضہ وادی میں ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنوری 2020
رواں سال کے آغاز میں بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر میں ٹیکسٹ میسیجنگ سروس کو جزوی طور پر بحال کردیا تھا، جنوری کی 10 تاریخ کو بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ کی بندش کو ‘غیر آئینی’ قرار دیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا تھا جس کے بعد 26 جنوری کو ایک مرتبہ پھر لندن میں بھارتی ہائی کمشنر کے باہر احتجاج کیا گیا تھا۔
فروری 2020
5 فروری کو بھارت کے غیر قانونی اقدام کو 6 ماہ کا عرصہ مکمل ہوا تھا اور اس کے اگلے روز بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر کے 4 رہنماؤں کی قید میں توسیع کردی تھی۔
اسی ماہ امریکا کے 4 سینیٹرز نے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا اور نئی دہلی کے دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ثالثی کی مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
مارچ 2020
بھارتی حکام نے سوشل میڈیا سے بندش ختم کی لیکن انٹرنیٹ پر دیگر پابندیوں کو برقرار رکھا تھا۔
جس کے بعد عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث پاکستان نے بھارتی حکام سے مقبوضہ کشمیر سے مواصلاتی پابندیاں ہٹانے اور کشمیریوں کو ضروری اشیا کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا۔
اپریل 2020
2 اپریل کو بھارت نے گزٹ نوٹی فیکشن جاری کردیا تھا جس کے تحت جموں و کشمیر میں 15 سال سے مقیم فرد اپنے ڈومیسائل میں مقبوضہ علاقے کو اپنا آبائی علاقہ قرار دے سکے گا۔
اس کے بعد 9 اپریل کو پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں کورونا وائرس کے 170کیسز اور 5 اموات کے باعث طبی معاونت کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
مئی 2020
3 مئی کو مقبوضہ کشمیر میں جھڑپ کے دوران 5 بھارتی سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 4 کشمیری جاں بحق ہوئے تھے جس کے بعد 13 مئی کو بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیری نوجوان کو موت کی نیند سلادیا تھا جس کے بعد مقبوضہ وادی میں مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔
جون 2020
2 جون کو پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے ایک روز میں 13 کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل پر سخت مذمت کا اظہار کیا تھا اور بین الاقوامی برادری سے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔
جولائی کے مہینے میں مقبوضہ کشمیر میں ایک چھوٹے بچے کی اپنے نانا کی لاش پر بیٹھی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولہ میں ماڈل ٹاؤن علاقے سوپور میں پیش آیا تھا۔
بھارت کی نیم فوجی دستے سینٹرل ریزور پولیس فورس (پی آر پی ایف) کے اہلکاروں اور حریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں راہ چلتا ایک کشمیری جاں بحق ہوگیا جبکہ ان کا 3 سالہ نواسہ محفوظ رہا تھا تاہم جاں بحق شخص کے اہل خانہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انہیں بھارتی فورسز نے قتل کیا ہے۔
اسی ماہ 9 جولائی کو اقوام متحدہ کے خصوصی مندوبین نے جنوری 2019 سے حراست کے دوران کئی مسلمان مردوں کو زندہ رہنے سے محروم کرنے کے حق اور ان پر مبینہ تشدد کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔
اگست 2020
ایک سال کے عرصے میں مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مطابق گزشتہ برس اگست سے 2 اگست 2020 تک 5 لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم ہوئے اور خطے کو 5 ارب 30 کروڑ کے معاشی خسارے کا سامنا ہوا۔
4 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے جابرانہ اقدام کو ایک برس مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہروں کے ڈر سے پوری وادی میں کرفیو نافذ کردیا تھا۔
آج 5 اگست 2020 کو بھارت کے اس جابرانہ اقدام کو ایک برس مکمل ہوگیا ہے، مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے جبکہ پاکستان میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یومِ استحصال منایا جارہا ہے۔