ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ویانا میں تہران کے میزائل اور خطے میں اثر و رسوخ کے حوالے سے جاری جوہری مذاکرات کے تعطل میں امریکا کی ‘ضد’ شامل ہے۔
خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اگلے ہفتے ان کے قریبی تصور کیے جانے والے سخت گیر نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی حلف اٹھائیں گے۔
ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، جس سے ایران کو یورینیم کی افزدوگی میں کمی لانی ہوگی جس کے بعد معاشی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی جبکہ خامنہ ای کا تازہ بیان اس کے برعکس اور سخت سمجھا جارہا ہے۔
خامنہ ای نے سرکاری ٹیلی ویژن میں نشر کیے گئے اپنے خطاب میں کہا کہ ‘دوسروں کو آپ کے تجربات استعمال کرنے چاہئیں، یہ تجربہ مغرب کی بداعتمادی کا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس حکومت میں یہ نظر آیا کہ مغرب پر اعتماد کام نہیں کرتا، مغرب والے ہماری مدد نہیں کرتے، وہ ہمیں جب کبھی نشانے بنا سکتے ہیں بنا لیتے ہیں’۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا تاہم بائیڈن انتظامیہ نے چند روز قبل ایران پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں تاخیر کے حوالے سے الزام دینا شرانگیزی ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی مذاکرات کار زبانی طور پر پابندیاں ہٹانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن جوہری معاہدے پرواپسی کی صورت میں دیگر امور پر بات کرنے پر سزا بھی ضرور شامل کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس سزا کے تعین سے وہ معاہدے کے اصول پر ان کی مزید مداخلت، میزائل پروگرام اور علاقائی مسائل پر ایک بہانہ فراہم کرنا چاہتے ہیں، اگر ایران ان پر بات کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ آپ نے معاہدہ توڑا ہے اور اب معاہدہ ختم ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ ‘مغرب والے ہماری مدد نہیں کرتے ہیں اور جب کبھی موقع ملے ہمیں نشانہ بناتے ہیں، وہ ہماری مدد نہیں کرتے، وہ ہمارے دشمن ہیں’۔
قبل ازیں گزشتہ ماہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے مذاکرات کار 2015 کے ایٹمی معاہدے کی بحالی کو ملتوی کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک واپس چلے گئے تھے۔
ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار عباس اراقچی نے ویانا سے سرکاری ٹی وی کو بتایا تھا کہ ’اب ہم معاہدے کے قریب تر ہیں تاہم جو فاصلہ ہمارے اور معاہدے کے درمیان موجود ہے اسے ختم کرنا آسان کام نہیں ہے، ہم آج رات تہران واپس آئیں گے‘۔
ایران، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے نمائندوں کے درمیان آسٹریا کےی شہر ویانا میں2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات ہوئے تھے، جن کو ایرانی نے تعمیری قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ 2018 میں امریکا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگیا تھا اور اس پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی گئی تھیں