بھارت کے معروف شاعر منور رانا نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط میں رائے بریلی میں دریائے سائی کے قریب بابری مسجد کی تعمیر کے لیے ساڑھے 5 ایکڑ اراضی کی پیش کش کردی۔
منور رانا نے خط میں کہا کہ حکومت کی جانب سے دھنی پور گاؤں میں بابری مسجد کی تعمیر کے لیے مخصوص کی گئی زمین کو راجا داشرتھ کے نام پر ہسپتال کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
مودی کے نام دو صفحات پر مشتمل خط میں 69 سالہ شاعر نے مطالبہ کیا کہ وقف کی جائیدادوں کی حفاظت کے لیے نیا مسلم وقف بورڈ بنایا جائے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق منور رانا نے کہا کہ ‘مسجد کے لیے زمین دھنی پور میں ایک دور دراز علاقے میں مختص کی گئی ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت کو کم کرنے کے لیے اس زمین پر راجا دشرتھ ہسپتال تعمیر کیا جائے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر کسی وجہ سے سرکاری زمین پر مسجد تعمیر نہیں ہوتی ہے یا فورس اس زمین کو تحویل میں لیتی ہے تو لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے کیا کام کیا ہے’۔
منور رانا نے خط میں لکھا ہے کہ رائے بریلی ایک تاریخی، ثقافتی اور مذہبی اہمیت کا حامل شہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میری خواہش ہے کہ میرے بیٹے تبریز رانا کے نام پر موجود زمین کو جامع بابری مسجد کی تعمیر کے لیے دیا جائے’۔
یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا تھا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔
جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔
بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔
ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے سے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں جمع کروا رکھی تھیں جس کے بعد اس معاملے پر 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے دہائیوں بعد فیصلہ سنایا تھا کہ مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کے لیے ایک ٹرسٹ بنایا جائے جو انتظامات کو دیکھے گا جبکہ مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دینے کو کہا تھا۔
سابق چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے گی’۔
ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل مذکورہ فیصلہ اس وقت کے بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔