فلسطین کے عوام اور رہنماؤں نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے تک اپنی جدوجہد بھرپور انداز میں جاری رکھنے کا عزم دہرایا۔
فلسطین کے عوام اور قیادت دونوں کو اس معاہدے کے اعلان پر حیرانی ہوئی۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے وزیر سماجی امور احمد مجادلانی نے کہا کہ ‘ہمیں اس معاہدے سے متعلق کوئی علم نہیں تھا، اس معاہدے کا وقت اور رفتار حیران کن ہے اوریہ معاہدہ فلسطین کی جدوجہد کے نازک موقعے پر سامنے آیا ہے’۔
فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر منیب المصری کا کہنا تھا کہ 2004 میں انتقال کرجانے والے شیخ زائد بن سلطان النیہان 30 برس سے زیادہ ابوظہبی کے حکمران رہے اور وہ فلسطینیوں کے بھرپور حامی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مرحوم شیخ زائد میرے بھائیوں کی طرح تھے، میں جانتا تھا کہ وہ فلسطین کی حمایت پر کس طرح فخر کرتے تھے لیکن مجھے اپنی زندگی میں یہ دن دیکھنے کا تصور بھی نہیں آیا تھا کہ متحدہ عرب امارات معمول کے حالات کے لیے فلسطینیوں کو فروخت کردے’۔
دیگر فلسطیوں حکام کا کہنا تھا کہ گوکہ یہ خبر اچانک آگئی ہے لیکن زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے رکن پارلیمان مصطفیٰ البرغوتی کا کہناتھا کہ ‘ہمیں اس اعلان پرزیادہ حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ اماراتی فوج کبھی بھی سرحد پر اسرائیل سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئی’۔
حماس اور اسلامک جہاد سمیت فلسطین کے تمام جماعتوں کی جانب سے جاری بیان میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کو مسترد کردیا گیا اور ایک دھچکا قرار دے دیا۔
سابق وزیر منیب المصری نے کہا کہ ‘ہم پہلے سےجانتے تھے کہ تعلقات کو بحال کرنے کے لیے بات ہورہی ہے لیکن اس طرح معاہدے کو قانونی شکل دینا اور اس نازک موقع پر اعلان کرنا افسوس ناک ہے’۔
فلسطینی رہنماؤں نے کہا کہ ‘یہ صدی کا معاہدہ (ڈیل آف دی سنچری) کو تھونپنے کی کوشش ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کے حقوق کو غصب کرنا، فلسطینیوں، عرب اور اسلام کے حقوق کی نفی ہے’۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ‘اس معاہدے کی کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی ہے اوریہ قبضے کو توسیع کرنے اور فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں اضافے کی اجازت دینے کے سوا کچھ نہیں ہے’۔
رکن پارلیمان مصطفیٰ البرغوتی نے کہا کہ یہ معاہدہ عرب امن اقدامات کے برعکس ہے اور عرب کے مؤقف پر چھری گھونپ دینے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اماراتی عوام کے مفاد کے بھی خلاف ہے اور متحدہ عرب امارات کے سابق حکمرانوں کے تاریخی مؤقف کے بھی برعکس ہے۔
ایک اوررہنما کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے تنازع سے متعلق عرب ممالک کے مؤقف کو نقصان پہنچاناتھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ بینجمن نیتن یاہو کو کہنے کا موقع دے گا کہ وہ انضمام کے ارادے کو ترک کیے بغیر عرب ممالک کے ساتھ امن بحال کرسکتا ہے۔ فلسطینیوں کو جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کی جانب اس اقدام کے خیرمقدم پر بھی تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بحرین اور دیگر عرب حکومت سے حیران ہیں کہ انہوں نے کھلم کھلا اس معاہدے کی حمایت کی ہے،کیا وہ فلسطین کے عوام اور ان کےحقوق کو بھول گئے ہیں، کیا وہ اسلام اور یروشلم کو بھول گئے ہیں۔
فلسطین کے رہنماؤں نے معاہدے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے تک ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔
ابویوسف نے کہا کہ ‘اس قبضے کے خاتمے کے لیے ہم نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ضائع نہیں جائیں گی، ہم اپنے حقوق اور اصولوں کے لیے دنیا کے آزاد لوگوں کی حمایت سے جدوجہد کوبھرپور اندازمیں جاری رکھیں گے’۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم نے ابوظہبی سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا ہنگامی فیصلہ کیا ہے اور دیگر تمام پہلووں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
فلسطینی حکام نے عرب دنیا اور عالمی برادری پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے زور دیا اور کہا کہ معاہدے کا بہترین جواب دیگر عرب ریاستوں سے دیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اب بھی امارات سمیت عرب کے لوگوں سے امید ہے، جو بدقسمتی سے ریاستی جبر کے باعث اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتے ہیں لیکن عرب کے عوام اس طرح کے اقدامات کو مسترد کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ‘امن معاہدہ’ ہوا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں گے۔ معاہدے کے مطابق اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کے یکطرفہ الحاق کے اپنے منصوے کو مؤخر کردے گا۔
اس معاہدے کے بارے میں امریکی صدر نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔
امریکی صدر نے پیش گوئی کی تھی کہ خطے کے دیگر ممالک بھی یو اے ای کے نقش قدم پر چلیں گے۔ یہ بات مدِ نظر رہے کہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر 1967 کی 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور بعد میں اس کا الحاق کرلیا تھا جسے بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔