سعودی عرب نے کہا ہے کہ امریکا کے صدر جوبائیڈن کی جانب سے ہماری خود مختاری اور سالمیت کے دفاع کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے یقین دیا ہے کہ جوبائیڈن کے اعلان کے بعد یمن میں سیاسی حل کے لیے تعاون کریں گے۔
سعودی پریس ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘سعودی عرب نے اعادہ کیا ہے کہ یمنی بحران کے مؤثر سیاسی حل کے لیے تعاون کرے گا اور امریکا کی جانب سے اس بحران کے حل کے لیے سفارتی تعاون کی اہمیت کا بھی خیرمقدم کیا’۔
رپورٹ کے مطابق جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ‘ہم یمن میں جنگ کے لیے تمام جارحانہ کارروائی میں اپنا تعاون ختم کر رہے ہیں، جس میں اسلحے کی فروخت بھی شامل ہے’۔
جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ‘سعودی عرب کو میزائل حملوں اور ایران کی جانب سے مختلف ممالک میں بھیجی گئی فورسز کے حملوں کا خطرہ ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم سعودی عرب کو اپنی خود مختاری اور عوام کے دفاع کے لیے مدد کرتے رہیں گے’۔
امریکی صدر کے بیان کے بعد سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘ہم صدر بائیڈن کے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تنازعات کے حل اور خطے میں ایران کی پراکسیز اور حملوں کے خلاف دفاع کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے اتحادی امریکا کے ساتھ یمن کے بحران اور دیگر معاملات پر کام جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں’۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ جو بائیڈن کی انتظامیہ نے سابق صدر کی پالیسی کا جائزہ لینے کی غرض سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت عارضی بنیادوں پر روک دینے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے اپنی پہلی بریفنگ میں بتایا تھا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت کی پالیسی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس جائزے کا مقصد ہماری حکومت کے اہداف کو جدت بخشنے اور خارجہ پالیسی کو مؤثر بنانے کے عمل کو یقینی بنانا ہے اور اس وقت ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔
قبل ازیں امریکی میڈیا میں رپورٹس آئی تھیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے اربوں ڈالر مالیت کے اسلحے کی فروخت عارضی طور پر بند کر دی ہے، جس میں سعودی عرب کو فراہم کیا جانے والا جدید اسلحہ اور متحدہ عرب امارات کو ایف-35 کی فروخت بھی شامل ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے منصب سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا اور اب وہ ٹرمپ کے متعدد فیصلوں کا جائزہ لے رہے ہیں اور کئی پالیسیوں کو تبدیل بھی کر رہے ہیں۔