بیلاروس کے انتخابی نتائج مسترد، یورپی یونین کی پابندیوں کی تنبیہ

یورپی یونین نے بیلاروس کے انتخابات کے متنازع نتائج کو مسترد کرتے ہوئے صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو کی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی تنبیہ کردی۔

یورپی یونین نے کہا کہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو کی جیت نہ تو شفاف تھی اور نہ ہی آزادانہ انتخاب تھا۔

یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ہنگامی اجلاس کے بعد بتایا کہ ہمارا بلاک بیلاروس کے عوام کے ساتھ ہے جہاں صدر کی غیرمتوقع جیت کے خلاف احتجاج 11 ویں روز بھی جاری ہے۔

جرمنی کی چانسلر اینجیلا مرکل نے تجویز دی تھی کہ بیلاروس میں الیگزینڈر لیوکاشینکوسمیت تمام فریقین بحران کے پرامن حل کے لیے قومی مذاکرات کریں ۔

بیلاروس کے صدرالیگزینڈر لیوکاشینکو 26 برس سے ملک میں حکمرانی کررہے ہیں لیکن انتخابات کے بعد ہونے والے احتجاج نے حکومت پر ان کی گرفت کمزور کردی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یورپی یونین 9 اگست کو انتخابات میں دھاندلی اور احتجاج کے دروان تشدد کرنے والے عناصر کو نشانہ بناتے ہوئے بیلاروس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے نئے پہلووں پر کام کررہا ہے۔

چارلس مائیکل کا کہنا تھا کہ جلد ہی کشیدگی پھیلانے، دباؤ ڈالنے اور انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افراد تک پہنچا جائے گا۔

ذمہ داروں پر پابندیوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ ان پر یورپی یونین میں سفری پابندی ہوگی اور اثاثے بھی منجمد ہوں گے۔

صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف تھے اور بین الاقوامی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے’۔

چارلس مائیکل نے کہا کہ ‘بیلاروس کے حکام کی جانب سے پیش کیے گئے انتخابی نتائج کو ہم نہیں مانتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘بیلاروس کے عوام بہتری کے مستحق ہیں، وہ اپنی قیادت کے انتخاب اور مستقل کو سنوارنے کے لیے جمہوری حق رکھتے ہیں’۔

چارلس مائیکل کے علاوہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے بیلاروس کے صدرالیگزینڈر لیوکاشینکو کے اتحادی روس کی قیادت سے ٹیلی فون پر بات کی۔

یورپی یونین کے رہنماؤں نے روسی قیادت کوبیلاروس میں بحران کے پرامن خاتمے کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ان کا ملک بحران میں مداخلت کرسکتا ہے جبکہ رواں ہفتے انہوں نے بیلاروس میں بیرونی مداخلت یا قیادت پر دباؤ ڈالنے سے خبردار کیا تھا۔

بیلاروس کی اپوزیشن کے 37 سالہ رہنما سویٹلانا ٹیکھانوسکایا انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کرنے کے بعد پڑوسی ملک لتھوانیا چلے گئے تھے۔

انہوں نے یورپی یونین کی قیادت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان فراڈ انتخابات کوتسلیم نہ کریں۔

بعد ازاں جرمن چانسلر انجیلا مریکل نے برلن میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انتخابات میں بری طرح قوانین کوروندا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیلاروس کے عوام کے پاس اپنے مستقبل کے انتخاب کا حق ہونا چاہیے۔

انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ بیلاروس کے عوام جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے اسی لیے ہم بیلاروس کے لیے آزاد راستہ چاہتے ہیں جہاں سیاسی معاملات کے فیصلے ریاست خود کرے۔

انہوں نے کہا کہ الیگزینڈر لیوکاشینکو نے فون پر جارحانہ رویہ اپنایا اور مسترد کردیا جس پر مجھے افسوس ہے۔

انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ثالثی اس وقت ہوسکتی ہے جب آپ تمام فریقین سے رابطے میں ہوں۔

نیدرلینڈز کے وزیراعظم مارک روٹ نے کہا کہ یورپی یونین انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کرسکتا اورمطالبہ کیا کہ نتیجہ خیز کارروائی کی جائے۔

خیال رہے کہ 9 اگست کو بیلاروس میں انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو نے 80 فیصد نشتیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ اپوزیشن رہنما نے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔

صدر کے اعلان کے بعد بیلاروس میں شدید احتجاج شروع ہوا جو 1991 میں سوویت یونین سے آزادی کے بعد بدترین احتجاج ہے۔