بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی، 4ہزار زخمی

لبنان کے دارالحکومت بیروت کے وسط میں واقع ساحلی ویئرہاؤس میں ہونے والے زوردار دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے اور 4ہزار افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ اموات میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ریسکیو اور ایمرجنسی ادارے ملبے کے ڈھیر سے لاشیں نکال رہے ہیں۔

یہ معاشی بحران سے دوچار اور کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نبردآزما بیروت میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہونے والا سب سے زوردار دھماکا ہے۔ صدر مچل عون نے کہا کہ 2ہزار 750ٹن امونیم نائٹریٹ کا فرٹیلائزر اور بموں میں استعمال کیا گیا جسے بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے چھ سال سے پورٹ پر ذخیرہ کیا جا رہا تھا اور یہ عمل ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے بدھ کو کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے دو ہفتے کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔

لبنان ریڈ کراس کے سربراہ جیارج کیتانی نے کہا کہ ہم مکمل تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، یہاں ہر طرف لاشیں اور زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک کم از کم 100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ہم علاقے کو صاف کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔

مقامی وقت کے مطابق شام 6بجے ہونے والے اس دھماکے کے ملبے سے ابھی تک دھواں بلند ہو رہا ہے اور دھماکے چند گھنٹوں بعد نارنجی رنگ کے بادل نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایک سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کو بیرون شہر سے باہر لے جایا جا رہا ہے کیونکہ بیروت کے ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں جبکہ ملک کے جنوبی اور شمالی علاقوں سے تمام ایمبولینسوں کو طلب کر لیا گیا ہے۔ جرمنی کے جیولوجیکل ادارے کے مطابق بیرون میں دھماکے سے 3.5شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا جبکہ اس کی شدت سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی ایٹمی دھماکا ہو گیا ہے۔

یہ زوردار دھماکے سے 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کی یاد تازہ ہو گئی جب لبنان میں آئے دن دھماکے، شیلنک اور اسرائیل کی فضائی کارروائیاں ہوتی تھیں۔

دھماکے کے بعد کچھ مقامی افراد کو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی زلزلہ آ گیا ہے اور زخمی اور روتے پیٹتے افراد اپنے پیاروں کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ افراد کو اپنے رشتے دار ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مل گئے جہاں ایک طبی عملے نے بتایا کہ صرف ایک ہسپتال میں 200 سے 300 افراد کو ایمرجنسی میں داخل کیا گیا ہے۔

طبی عملے کے ایک اور فرد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آج تک ایسا نہیں دیکھا، یہ انتہائی خطرناک تھا۔

بیروت کی ڈیزائنر ہدیٰ برودی نے کہا کہ دھماکے نے مجھے کئی میٹر دور اٹھا کر پھینک دیا، میں چکرا گئی اور مکمل طور پر خون سے لت پت تھی، اس دھماکے سے ایک اور دھماکے کی یاد تازہ ہو گئی جو میں نے 1983 میں امریکی سفارتخانے میں دیکھا تھا۔

وزیر اعظم حسن دیاب نے قوم سے کہا کہ خطرناک ویئرہاؤس میں دھماکے کے ذمے داران کا احتساب کیا جائے گا اور ذمے داروں کو قیمت ادا کرنا ہو گی۔

یہ دھماکے اتنے شدید تھے کہ اس کی شدت 240کلومیٹر دور قبرص تک محسوس کی گئی۔ بیروت میں امریکی سفارتخانے نے خطرناک گیسز کے انخلا کی رپورٹس پر اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں، غیرضروری طور پر باہر نہ نکلیں اور اگر ممکن ہو تو ماسک پہنے رہیں۔

دھماکے کی فوٹیج بنانے والوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کی ہیں جس میں ہر سو دھویں کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ دو کلومیٹر دور ے ویڈیو بنانے والے افراد بھی دھماکے کی شدت سے پیچھے جا گرے تھے۔

بیروت کی سڑکوں اور تباہ حال عمارتوں، ملبے کے ڈھیر اور تباہ شدہ گاڑیوں اور فرنیچر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہاں کوئی زلزلہ آ گیا ہے۔ حکام ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ دھماکا کس وجہ سے ہوا تاہم ایک سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ یہ ویئرہاؤس میں ویلڈنگ کے کام کے دوران کسی غفلت کی وجہ سے ہوا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک دھماکے سے ہونے والی تباہی کا تخمینہ لگانے سے قاصر ہیں۔ لبنان کے وزیر اعظم نے بدھ کو ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دھماکا ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عدالت تین دن بعد ہی 2005 بم دھماکوں میں ملوث حزب اللہ کے چار ملزمان کے مقدمے کا فیصلہ سنانے والی تھی۔

2005 میں بیروت میں ٹرک دھماکے میں سابق وزیر اعظم رفیق الحریری سمیت 22افراد ہلاک ہو گئے تھے اور وہ دھماکا بھی ساحل سے محض دو کلومیٹر دور ہوا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے بیروت میں دھماکے اور قیمتی جانوں کے ضیاں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس مشکل وقت میں اپنے لبنانی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی۔

اسرائیل نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ لبنان سے کئی جنگیں لڑنے والے اسرائیل کا مذکورہ دھماکے سے کوئی لینا دینا نہیں اور ان کا ملک انسانی اور طبی امداد کے لیے تیار ہے۔

حزب اللہ کی حمایت کرنے والے ایران نے بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ ایران کے حریف سعودی عرب نے بھی امداد کا یقین دلایا ہے۔

قطر اور عراق کا کہنا ہے کہ وہ عارضی ہسپتال بھیج رہے ہیں تاکہ زخمیوں کو بروقت امداد مل سکے جبکہ امریکا، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امداد کے لیے تیار ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ دھماکا ممکنہ طور پر حملہ ہو سکتا ہے اور جب ان سے اس حوالے سے مزید تفصیل پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ان کی چند امریکی فوجی جنرلز سے سے ملاقات ہوئی جن کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام دھماکے کا واقعہ نہیں ہو سکتا۔

البتہ دو امریکی عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ابتدائی تفتیش ٹرمپ کے بیانیے کی نفی کرتی ہے۔