بھارت کے آئی ٹی حب بینگلورو میں فیس بک پر حضرت محمد ﷺ سے متعلق ‘توہین آمیز’ پوسٹ کے بعد ہنگامے برپا ہوگئے اور پولیس اور ہزاروں مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے۔
پرتشدد واقعات گزشتہ روز 7 بجے شروع ہوئے اور کم از کم 5 گھنٹے تک جاری رہے جس کے بعد بدھ کی صبح تک 110 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کانگریس کے ایک ایم ایل اے اکھنڈا سرینواسا مورتھی کے قریبی عزیز کی جانب سے سوشل میڈیا سائٹ پر حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ‘توہین آمیز’ پوسٹ کے بعد اشتعال پھیلا تاہم اس کے بعد مذکورہ پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا گیا۔
اس گستاخانہ پوسٹ کے بعد ایک ہجوم مقامی قانون ساز کے گھر کے باہر پہنچا اور 2 گاڑیوں کو آگ لگادی۔
پولیس کے مطابق مذکورہ معاملے میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انڈیا (ایس ڈی پی آئی) سے تعلق رکھنے والے مزمل پاشا اور 6 دیگر لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔
دوسری جانب بینگلورو پولیس کے کمشنر کمال پنٹ نے ٹوئٹر پر پوسٹ میں بتایا کہ مذکورہ پوسٹ کرنے پر ایم ایل اے کے عزیز کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ اس کے ساتھ فسادات اور آتش زنی پر تقریباً 100 افراد کو بھی پکڑا گیا ہے اور اب صورتحال قابو میں ہے۔
اس سے قبل گزشتہ روز مشتعل مظاہرین نے تھانے پر دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں 60 افسران زخمی ہوئے جبکہ وہاں موجود گاڑیوں کو بھی آگ لگادی گئی۔
تاہم پولیس کی جانب سے مشتعل ہجوم پر براہ راست فائرنگ کی گئی اور آنسو گیس کے شیل برسائے گئے۔
پولیس نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ منگل کے روز ہوئے پرتشدد واقعے میں 3 افراد شدید زخمی ہوئے تھے جبکہ ایک رپورٹر بھی زخمی ہوگیا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین کی جانب سے قانون ساز کے عزیز کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ ایل ایم اے کے رشتے دار نے دعویٰ کیا کہ ان کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک ہوگیا تھا اور انہوں نے کوئی قابل اعتراض مواد پوسٹ نہیں کیا۔
علاوہ ازیں ایم ایل اے نے واقعے کو ‘شرپسند عناصر کی کارروائی’ قرار دیا اور کہا کہ پولیس اور حکومت تحقیقات کرے گی اور فساد برپا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ میں اس حلقے کا ایم ایل اے ہوں اور یہاں ہر کوئی میرا خاندان ہے۔
خیال رہے کہ بینگلورو بھارت کے سلیکون ویلی کے طور پر جانا جاتا ہے اور وہاں کی 80 لاکھ آبادی میں بڑی تعداد میں مسلمان ہیں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بھارت میں اس طرح کے فسادات نے جنم لیا بلکہ اس سے قبل بھی وہاں مذہبی فسادات رونما ہوچکے ہیں، جس میں زیادہ تر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بھارت میں 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد اس طرح کے فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں سال فروری میں بھی بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی مذہبی فسادات ہوئے تھے جس میں 50 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی جبکہ مسلمانوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔