بھارت میں نئی دہلی کے نزدیک نوجوان مسلمان کو ایک گروہ نے بھینس کا گوشت لے جانے کے شبہ میں تشدد کا نشانہ بنایا جس کی ویڈیو سماجی روابط کی ویب سائٹ پر وائرل ہوگئی۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ ہریانہ کے ضلع گڑگاؤں میں جمعہ کی صبح پیش آیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ واقعہ میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ویڈیو میں ایک گروہ کی جانب سے 27 سالہ نوجوان کو گھسیٹتے اور لات مارتے دیکھا جاسکتا ہے جس کی شناخت لقمان کے نام سے ہوئی جبکہ ساتھ ایک بہت بڑا مجمع خاموشی سے دیکھتا رہا۔
پولیس پی آر او سبھاش بوکن نے بتایا کہ ‘متاثرہ شخص نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے ٹرک میں بھینس کا گوشت گڑگاؤں کے علاقے نوح سے صدر بازار لے جارہا تھا، جب وہ گڑگاؤں پہنچا تو موٹرسائیکلوں پر سوار چند لوگوں نے اس کا پیچھا کیا، اس نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اسے روک لیا گیا’۔
پولیس نے بتایا کہ ‘بعد میں وہ متاثرہ شخص کو سوہنا کے قریب کسی اور جگہ لے گئے اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچایا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ملزم پردیپ یادیو کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ دیگر کی شناخت ہوگئی ہے اور ان کو پکڑنے کے لیے کوششیں کی جاری ہیں۔
انہوں نے دی ہندو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘حملے کا مقصد واضح نہیں جبکہ اس میں گائے کے گوشت کی نقل و حمل کے بارے میں شبہ پایا جاتا ہے اور گوشت کے نمونے بھی لے لیے گئے ہیں’۔
مسجد مارکیٹ کے صدر نے بتایا کہ حملہ آوروں نے مداخلت کرنے کی کوشش کرنے والوں پر بھی حملہ کیا تھا۔ گاڑی کے مالک کا کہنا تھا کہ گوشت بھینس کا ہے اور وہ 50 سال سے یہ کاروبار کر رہا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عہدیداروں نے گوشت کو لیب میں جانچ کے لیے بھیج دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2015 سے 2018 تک گائے سے متعلقہ تشدد کے واقعات میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سن 2019 میں جاری ہونے والی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں اقلیتوں کے خلاف مذہبی تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ خاص طور پر گائے کا گوشت کھانے کے لیے مسلمانوں اور نچلی ذات کے دلتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
حالیہ برسوں میں مشتعل ہجوم نے بھارت میں پسماندہ برادری کے بہت سے لوگوں کو، خاص کر مسلمان اور دلت کو اکثر گائے کو ذبح کرنے کے شبہات کے تحت بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور اس دوران کئی اموات بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔