امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا جائزہ لیں گے، جوبائیڈن انتظامیہ

جو بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ امریکا اور طالبان کے مابین معاہدے کا جائزہ لے گی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق طالبان کی جانب سے حملوں میں کمی کے تناظر میں معاہدے کا جائزہ لیا جائے گا۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایملی ہورنی نے بتایا کہ قومی سلامتی کے نومنتخب مشیر جیب سلیوان نے اپنے افغان ہم منصب احمد اللہ محب سے بات کی اور معاہدے پر نظرثانی سے متعلق امریکا کے ارادے کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر واشنگٹن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ طالبان ‘دہشت گرد گروہوں سے تعلقات منقطع، افغانستان میں تشدد کو کم کرنے اور افغان حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامقصد مذاکرات میں حصہ لینے کے وعدوں پر عمل پیرا ہیں’۔

انہوں نے اپنے بیان میں ‘اس بات پر زور دیا کہ امریکا ایک مضبوط اور علاقائی سفارتی کوششوں سے امن عمل کی حمایت کرے گا، جس کا مقصد دونوں فریقین کو پائیدار اور انصاف پسندانہ سیاسی تصفیہ اور مستقل جنگ بندی کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہوگا’۔

مذکورہ بیان جو بائیڈن کے افغانستان کے بارے میں مؤقف کے مطابق ہے جنہوں نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں جنگی فوجیوں کی تعداد کو کم کردیں گے، لیکن امریکی فوجی موجودگی سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

وزیر خارجہ کے لیے نامزد امیدوار انتھونی بلنکن نے اشارہ دیا تھا کہ افغانستان میں تشدد میں اضافے کے نتیجے میں امریکا اپنی کچھ فوجیں برقرار رکھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہم دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے سے بچنے کے لیے کچھ گنجائش برقرار رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں دھیان سے دیکھنا ہوگا کہ اصل میں کیا بات چیت ہوئی’۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘ہم اس نام نہاد جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں’۔

مذکورہ بیان کے بارے میں رابطہ کرنے پر طالبان نے امید ظاہر کی کہ امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر قائم اور عہد کا احترام کریں گے۔

قطر میں طالبان گروپ کے ترجمان محمد نعیم نے بتایا کہ ‘ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرا فریق (امریکا) بھی معاہدے کا پابند رہے گا’۔

دوسری جانب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر محب نے ٹوئٹ کیا کہ دونوں فریقوں نے ملک میں ‘مستقل جنگ بندی اور ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی طرف کام کرنے پر اتفاق کیا ہے’۔

واضح رہے کہ تقریباً 20 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکا، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض جنگجو گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔

29 فروری 2020 کو امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

امریکی عہدیداران اور نیٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8 ہزار 600 کے قریب ہے۔