سلامتی کونسل کے لیے تیار کردہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مشرقی، جنوبی اور جنوب مشرقی کم سے کم 15 صوبوں میں القاعدہ موجود ہے۔
رواں ہفتے کونسل کو ارسال کردہ ’تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی‘ کرنے والی ٹیم کی 28ویں رپورٹ میں داعش، القاعدہ اور ان سے وابستہ گروہ سے متعلق تازہ ترین معلومات پیش کی گئیں۔
یہ ٹیم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قرار داد کے تحت قائم کی گئی ہے اور اس کی رپورٹ عالمی ادارے کی تمام سرکاری زبانوں میں شائع ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال فروری میں دوحہ میں ہونے والے امریکا اور طالبان کے امن معاہدے کے باوجود افغانستان میں سلامتی کی صورتحال ’نازک‘ ہے اور افغان امن عمل سے متعلق غیر یقینی صورتحال میں مزید بگاڑ کا خطرہ ہے۔
عسکریت پسند گروپ کے ہفتہ وار نیوز لیٹر ’تھابت‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ القاعدہ برصغیر پاک و ہند (اے کیو آئی ایس) طالبان کے تحفظ سے قندھار، ہلمند اور نمروز صوبوں سے کام کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اے کیو آئی ایس بنیادی طور پر افغان اور پاکستانی شہریوں پر مشتمل ہے جس میں بنگلہ دیش، بھارت اور میانمار کے افراد بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 30 مارچ کو صوبہ پکتیکا کے ضلع گیان میں اے کیو آئی ایس کے کمانڈر دولت بیک تاجکی کو افغان فورسز نے ہلاک کردیا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ القاعدہ کی سربراہی کرنے والے ایمن الظواہری زندہ ہیں لیکن وہ بیمار ہیں اور مبینہ طور پر ان کے بعد سیف العدل القاعدہ کی کمان سنبھالیں گے جو ایران میں مقیم ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’رکن ممالک اس بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں کہ اگر ایمن الظواہری کی جگہ سیف العدل ہوں گے تو وہ کن امور کے بارے میں سوچیں گے‘۔
رپورٹ کے مطابق ’قوی امکان ہے کہ وہ افغانستان میں نہیں رکیں گے‘۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے متعلق اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کی ٹیم نے خبردار کیا کہ ٹی ٹی پی، اسلحہ بردار گروپوں کے اتحاد اور سرحد پار سے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث خطے کے لیے خطرہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی نے بھتہ خوری، اسمگلنگ اور ٹیکسوں سے اپنے مالی وسائل میں اضافہ کیا ہے جبکہ ایک رکن ملک کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں میں سے ایک مفتی خالد کو جماعت الاحرار نے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں وسائل مختص کرنے کے معاملے پر اندرونی تنازع پر مئی میں قتل کردیا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پیچیدہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے منظم افراد کی جانب سے خطرہ باقی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رواں سال فروری میں ڈنمارک اور جرمنی میں 14 افراد کو دھماکا خیز کیمیکل سے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔