متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے پیر کو کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کا معاہدہ ایک ‘خود مختار فیصلہ’ تھا اور اس کا ایران سے کوئی لینا دینا نہیں۔
خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے کہا کہ اس نے ابوظہبی میں ایران کے ناظم الامور کو طلب کیا ہے اور ایرانی صدر حسن روحانی کی تقریر کے جواب میں انہیں ‘سخت الفاظ میں میمو’ دیا ہے جہاں وزارت خارجہ نے روحانی کی تقریر کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا ہے۔
ہفتہ کے روز گفتگو کرتے ہوئے حسن روحانی نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے تک پہنچ کر ‘بہت بڑی غلطی’ کی ہے اور اس معاہدے کو خلیجی ریاستوں سے غداری قرار دیا۔
انور قرقاش نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ ایک خود مختار فیصلہ ہے جس کا مقصد ایران کو نشانہ بنانا نہیں، ہم یہ کہتے ہیں اور اسے دہراتے ہیں، ہم اپنے فیصلوں میں مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔
اتوار کے روز چھ رکنی خلیجی تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل نے معاہدے پر روحانی اور دیگر ایرانی عہدیداروں کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو دی جانے والی ‘دھمکیوں’ کی مذمت کی تھی۔
ایران اور ترکی نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کو ‘خنجر’ قرار دیا تھا جسے متحدہ عرب امارات نے فلسطینی عوام اور تمام مسلمانوں کی پیٹھ میں ناجائز طور پر گھونپا ہے، ترکی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ذریعے خطے کے عوام اس منافقانہ سلوک کو کبھی نہیں فراموش کریں گے اور کبھی معاف نہیں کریں گے۔
ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کو فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ بات چیت کرنے یا فلسطین کے لیے اہم معاملات پر مراعات دینے کا اختیار نہیں ہے۔