جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد مایہ ناز لیگ اسپنر عمران طاہر نے کہا کہ انہیں زندگی بھر پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی نہ کرنے کا افسوس رہے گا۔
لاہور میں پیدا ہونے والے عمران طاہر نے انڈر 19 اور اے ٹیم کی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی لیکن وہ کبھی پاکستان کی قومی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی سے محروم رہے۔
اس کے بعد عمران طاہر کی اہلیہ نے انہیں جنوبی افریقہ منتقلی پر راضی کر لیا جس کے بعد وہ جنوبی افریقہ کی تاریخ کے بہترین اسپنرز میں سے ایک بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی کرکٹ کا آغاز میں نے لاہور میں کراؤن کلب سے کیا تھا، وہاں سینئرز سے بہت کچھ سیکھا کیونکہ ہم جس علاقے سے تعلق رکھتے تھے وہاں اتنی سہولیات میسر نہیں تھیں، پھر میں پی این ٹی اور پھر شائننگ میں کھیلا۔ انہوں نے کہا کہ میں لاہور میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا اور آج میں جو کچھ بھی ہوں اس میں اس نے اہم کردار ادا کیا، میں نے اپنی اکثر کرکٹ پاکستان میں کھیلی لیکن مجھے وہاں موقع نہیں ملا جس پر میں بہت مایوس ہوا۔
41 سالہ کرکٹر نے کہا کہ میں اپنے تمام تر کارناموں کا سہرا لاہور کی کرکٹ کو دوں گا کیونکہ میں یہاں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل کر اتنا مضبوط ہو گیا تھا کہ میں دنیا کی کسی بھی کرکٹ کا مقابلہ کر سکتا تھا۔
لیگ اسپنر نے کہا کہ پاکستان چھوڑنا بہت مشکل تھا لیکن خدا نے مجھ پر کرم کیا اور جنوبی افریقہ کے لیے کھیلنے کا تمام تر سہرا میری اہلیہ کو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘میری اہلیہ نے میرا بہت ساتھ دیا کیونکہ ابتدائی پانچ سال تو میں وہاں لوکل کرکٹر تھا، جنوبی افریقہ میں بہت کچھ حاصل کیا اور وہاں کے لوگوں نے جو عزت دی اس کے لیے میں ان کا بھی شکرگزار ہوں کیونکہ ان کے لیے بھی برصغیر کے کسی فرد کو تسلیم کرنا آسان نہیں تھا’۔
عمران طاہر نے 20 ٹیسٹ میچوں میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی جس میں وہ 40.24 کی اوسط سے 57 وکٹیں لے چکے ہیں۔
تاہم وہ محدود اوورز کی کرکٹ میں انتہا سے زیادہ کامیاب رہے اور 107 ون ڈے میچوں میں 173 اور 38 ٹی 20 میچوں میں 63 وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستان سپر لیگ کے فاتح کے حوالے سے سوال پر عمران طاہر نے کہا کہ پی ایس ایل فائیو کے چیمپئن کا فیصلہ اگر گراونڈ میں ہو تو زیادہ اچھا ہوگا لیکن اگر باقی میچز نہیں ہوتے تو پھر پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ پوزیشن کی ٹیم کو فاتح قرار دیا جائے۔
لیگ اسپنر نے کہا کہ میں ایسا ملتان سلطان کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے نہیں کہہ رہا بلکہ اس وقت واحد حل یہی ہے اور جنوبی افریقہ نے بھی سرفہرست ٹیم کو چیمپیئن قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس کے سبب پاکستان سپر لیگ کے پلے آف کے میچز منعقد نہیں ہو سکے تھے اور ایونٹ کو ملتوی کردیا گیا تھا۔
اگر ایونٹ میں سب سے زیادہ پوائنٹس کی حامل ٹیم کو چیمپیئن قرار دینے کا فیصلہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ملتان سلطان کی ٹیم سب سے زیادہ پوائنٹس کی بدولت چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کر لے گی۔