* تاج برطانیہ کا عروج وزوال اور جگنی*

۔۔۔۔۔۔۔* تاج برطانیہ کا عروج وزوال اور جگنی*۔۔۔۔
خیراندیش: (رانا علمدار حسین خاں سڈنی آسٹریلیا)

ملکہ وکٹوریہ تاج برطانیہ کی ساتویں ملکہ تھیں
یہ 20 جون1837 ء میں ملکہ بنیں
اور 22 جنوری 1901ء تک ملکہ رہیں‘
یہ اس لحاظ سے برطانیہ کی طویل المدت ملکہ تھیں‘
یہ 63 سال 7 ماہ اور دو دن مسند اقتدار پر جلوہ افروز رہیں‘
ملکہ وکٹوریہ کے دور میں انگریز سلطنت میں حقیقتاً سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘
کرہ ارض پر سورج کی پہلی کرن نیوزی لینڈ میں پڑتی ہے‘
نیوزی لینڈ برطانوی سلطنت کا حصہ تھا‘ سورج نیوزی لینڈ کے بعد جوں جوں آگے بڑھتا تھا اس کے راستے میں آنے والے تمام ملک‘ تمام زمینوں پر برطانیہ کا یونین جیک لہراتا تھا‘ سورج جب تھک کر آنکھیں موندھنے لگتا تھا تو نیوزی لینڈ میں دن کا آغاز ہو جاتا تھا لہٰذا یوں ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

ملکہ وکٹوریہ نے دنیا کو بے شمار نئی چیزیں، نئی روایات بھی دیں‘
یہ روایات‘ یہ چیزیں، آج تک موجود ہیں مثلاً دنیا میں آج بھی وکٹورین طرز تعمیر موجود ہے‘ وکٹورین فرنیچر بھی آج تک بنایا جاتا ہے‘
ملکہ وکٹوریہ جس طرز کی بگھی استعمال کرتی تھی وہ بگھی بعد ازاں پوری سلطنت میں عوامی سواری بنی اور وہ وکٹوریہ کہلائی‘ یا وکٹوریہ تانگہ کہلایا‘ برطانیہ میں بہادری کا سب سے بڑا اعزاز آج بھی وکٹوریہ کراس کہلاتا ہے
اور دنیا میں پروٹوکول کا جدید نظام بھی ملکہ وکٹوریہ نے وضع کیا تھا‘ ملکہ نے وی آئی پی اور وی وی آئی پی کی باقاعدہ کیٹگریز بنوائی تھیں اور اس کی پوری سلطنت میں لوگوں کو ان کیٹگریز کے تحت سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا‘
انگریز دور میں تحصیل کی سطح پر کرسی نشین اور سفید پوش دو اعزازی عہدے ہوتے تھے۔
کرسی نشین کا ٹائیٹل گاؤں کے اس شخص کو ملتا تھا جو انگریز کو گھوڑے‘ فوجی اور مخبری دیتا تھا‘
کرسی نشین کو سرکاری دفاتر میں سرکاری افسروں کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی جب کہ باقی لوگ زمین پر بیٹھتے تھے یا زیادہ سے زیادہ افسر کے سامنے کھڑے ہو سکتے تھے
جب کہ سفید پوش وہ معزز لوگ ہوتے تھے جنھیں سرکار ان کی وفاداریوں سے خوش ہو کر ہر سال سفید رنگ کے دو جوڑے عنایت کرتی تھی اور یہ لوگ یہ کپڑے پہن کر سرکاری دفتروں میں جاتے تھے‘ سرکاری پروٹوکول سفید پوشوں اور کرسی نشینوں سے شروع ہوتا تھا اور ملکہ تک جاتا تھا‘ اس دور میں سرکار ، نمبر دار‘ کانسٹیبل اور پٹواری سے شروع ہوتی تھی اور وائسرائے تک جاتی تھی‘ یہ وائسرائے ملکہ کے گورے غلام ہوتے تھے۔
ان لوگوں کو کیا کیا پروٹوکول حاصل تھا یہ تمام معلومات ایک سرکاری ڈائری میں درج ہوتی تھیں‘
یہ ڈائری ’’بلیو بک‘‘ کہلاتی تھی‘
یہ “بلیو بک” ڈپٹی کمشنر کے قبضے میں رہتی تھی‘ وہ اسے سرکاری تجوری میں رکھتا تھا اور اس کے علاوہ کوئی شخص اس ڈائری کو ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا‘
ڈپٹی کمشنر تبادلے کے بعد اس وقت تک چارج نہیں چھوڑ سکتا تھا جب تک وہ بلیو بک نئے ڈپٹی کمشنر کے حوالے نہیں کر دیتا تھا‘
ملکہ کا ایک حکم سلطنت کی بلیو بک بدل دیتا تھا‘
ملک کے تمام معززین ذلیل ہو جاتے تھے اور ذلیلوں کو درجے مل جاتے تھے۔
ملکہ وکٹوریہ نے جون 1887ء میں اپنی تاج پوشی کی گولڈن جوبلی منائی‘
ملکہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات پوری سلطنت میں منائی گئیں‘
ان تقریبات میں دو اہم ترین چیزیں شامل تھیں‘
ایک ۔۔۔۔۔ ملکہ نے اپنی سلطنت کے تمام بڑے شہروں میں اپنے نام کی یادگاریں بنوائیں‘
یہ یاد گاریں آج بھی برطانوی راج کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں‘
کراچی کی ایمپریس مارکیٹ ملکہ وکٹوریہ کی اسی گولڈن جوبلی کے موقع پر تعمیر ہوئی تھی‘
دوسرا۔۔۔۔۔ لندن سے ہندوستان تک ملکہ کے نام سے جوبلی مشعل نکلی‘
اس مشعل نے ملکہ کی پوری سلطنت کا چکر لگایا‘
یہ مختلف ملکوں اور مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی ہندوستان پہنچی۔
مشعل ہندوستان کے ایک ضلعے میں آتی‘ ضلع بھر کے لوگ ڈھول تاشوں سے اس کا استقبال کرتے‘
آتش بازی کا مظاہرہ ہوتا‘
گانے گائے جاتے اور ڈانس کیے جاتے‘
یہ مشعل اس عالم میں پورے ضلع کا چکر لگاتی‘
مشعل کا چکر مکمل ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر ضلع کی سرحد پر پہنچ کر مشعل دوسرے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے حوالے کر دیتا‘ اور مشعل کا اگلا سفر شروع ہو جاتا‘
یہ مشعل ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی پنجاب پہنچی تو پنجاب حکومت نے جوبلی کے نام سے ایک طویل پنجابی گانا تیار کروایا۔
یہ گانا قصور کے دو بھائیوں نے تیار کیا تھا‘ یہ ان پڑھ تھے‘
جوبلی کا لفظ ان کے منہ پر نہیں چڑھتا تھا چنانچہ انھوں نے جوبلی کو
*جُگنی*
بنا دیا‘ یا شائید جگنو کی روشنی سے یہ لفظ جگنی بنایا گیا۔
ان نامعلوم فنکاروں نے اس
*جُگنی (جُوبلی)*
میں پنجاب کے تمام علاقوں کی ثقافت بیان کی‘
جگنی گئی ملتان…
یعنی جوبلی کی مشعل ملتان چلی گئی‘
جگنی گئی گجرات …وغیرہ وغیرہ‘
یہ جگنی اس دور میں پورے ہندوستان میں مشہور ہوگئی۔
ملکہ وکٹوریہ کو مرے ہوئے 115 سال ہو چکے ہیں لیکن اس کی جگنی آج تک ہندوستانی پنجاب اور پاکستانی پنجاب دونوں میں زندہ ہے۔
دنیا سے صرف ملکہ وکٹوریہ رخصت نہیں ہوئی بلکہ اس کی سلطنت بھی آہستہ آہستہ بند مٹھی کی ریت کی طرح زمین پر بکھر گئی اور آج برطانیہ صرف برطانیہ تک محدود ہو چکا ہے‘
اب سوال یہ ہے دنیا کی اتنی بڑی سلطنت ختم کیسے ہو گئی‘
وہ برطانیہ جس کی ملکہ کی مشعل 68 ممالک میں گھمائی گئی تھی‘
وہ برطانیہ آج صرف دو لاکھ 43 ہزار 6سو 10 مربع کلومیٹر تک محدود ہو کر کیوں رہ گیا؟
اس زوال کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ گوروں کی بلیو بک اور پروٹوکول بھی تھا‘ گوروں نے انسان کو اسٹیٹس کی لاتعداد ٹکٹکیوں پر لٹکا دیا تھا‘ بادشاہ اور ملکہ سے پروٹوکول شروع ہوتا تھا اور وائسرائے تک آتا تھا اور وائسرائے سے اس کی کونسل کے ارکان تک جاتا تھا‘
وہاں سے سر کے خطاب حاصل کرنے والے لوگوں تک آتا تھا اور وہاں سے ہوتے ہوئے سفید پوشوں اور کرسی نشینوں تک جاتا تھا۔
یہ جس شخص کو وفاداری اور حب الوطنی کا پروانہ جاری کرتے تھے صرف وہی شخص وفادار اور حب الوطن ہوتا تھا‘
باقی تمام مشکوک سمجھے جاتے تھے اور انھیں اس شک کی بنیاد پر کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا تھا‘
یا گولی ماری جا سکتی تھی‘
سرکار کے ظلم کی حالت یہ تھی‘
بریگیڈیئر جنرل ڈائر نے 13 اپریل 1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں گولی چلا کر 370 لوگ قتل کر دیے اور کوئی شخص اس کا ہاتھ نہ روک سکا‘
کیوں؟
کیونکہ جنرل ڈائر کو ملکہ کے عنایت کردہ اختیارات کے مطابق گولی چلانے کا اختیار حاصل تھا چنانچہ اس نے یہ اختیار استعمال کیا اور سرکار نے عوامی رد عمل کے بعد جنرل ڈائر کو بطور سزا لندن واپس بھجوا دیا اور یہ سزا 370 لوگوں کے قتل کی سزا تھی۔
یہ وہ پروٹوکول اور یہ وہ بے لگام اختیارات تھے جنہوں نے برطانیہ کے نہ ڈوبنے والے سورج کو تاریخ کے سیاہ سمندر میں ڈبکی دے کر بجھا دیا‘

برطانیہ نے تاریخ کے اس خوفناک زوال کے بعد چار بڑے فیصلے کیے‘

پہلا فیصلہ پروٹوکول کا خاتمہ تھا‘
برطانیہ نے لوگوں کے درجے ختم کر دیے‘ آج برطانیہ میں شاہی خاندان موجود ہے لیکن ان کی شہنشاہیت صرف محل تک محدود ہے‘
یہ لوگ جوں ہی محل سے باہر آتے ہیں‘
عام برطانوی لوگوں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہتا‘
انھیں بھی سڑک پر روکا جاتا ہے‘
ان کا بھی چالان ہوتا ہے اور انھیں بھی عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے‘ وزیراعظم اور وزراء بھی عام شہریوں کی طرح سڑکوں پر پھرتے ہیں‘
یہ عام ٹرینوں اور بسوں میں سفر کرتے ہیں۔
عام جہازوں کی اکانومی کلاس میں سوار ہوتے ہیں‘
برطانیہ کے وزراء اعظم 282سال سے تین بیڈروم کے گھر 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں رہ رہے ہیں‘
ملک کے کسی وزیراعظم کو 282 سالوں میں کوئی بڑی رہائش گاہ نصیب نہیں ہوئی‘
شاہی خاندان کے پاس درجنوں محلات تھے‘
ہر محل کے اندر ہزار ہزار ایکڑ کا باغ تھا لیکن پھر یہ تمام باغ عوامی پارک بنا دیے گئے‘
اسی فیصد محلات بھی آج میوزیم ہیں اور سیاح روزانہ ان کی سیر کرتے ہیں‘
ملک میں آرمی چیف ہو‘ پولیس چیف ہو یا چیف جسٹس ہو کسی کو کوئی پروٹوکول حاصل نہیں‘
یہ لوگ اپنے دفاتر کے باہر عام شہری ہیں۔

دوسرا فیصلہ. “قانون کی حکمرانی تھا‘
برطانیہ میں کوئی شخص قانون سے مضبوط اور بالاتر نہیں‘ برطانیہ نے فیصلہ کیا ہمارے ملک میں قانون مضبوط ہو گا اور کوئی عہدہ یا کوئی شخصیت اس سے بالاتر نہیں ہو گی‘

تیسرا فیصلہ. “جمہوریت تھا” ملک کے تمام اختیارات کا ماخذ عوام ہیں‘
عوام پارٹی یا شخصیت کو مینڈیٹ دیتے ہیں اور کسی شخص یا عہدیدار کو یہ مینڈیٹ چوری کرنے کا حق نہیں‘ ملک میں جعلی ووٹ یا دھاندلی کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا‘
برطانیہ میں پچھلے سو سال میں الیکشن دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگا اور چوتھا اور آخری فیصلہ لیڈر شپ تھا۔
یہ لوگ صرف اس شخص کو حق حکمرانی دیتے ہیں جو ذہنی‘ تعلیمی‘ اخلاقی اور جسمانی لحاظ سے شاندار ہوتا ہے‘
ان کے کسی سیاستدان پر انا‘ ضد یا ہٹ دھرمی یا نقل‘
جعلی ڈگری یا بے ایمانی‘ چوری‘ٹیکس چوری‘ جھوٹ یا کسی بڑی بیماری کا الزام لگ جائے تو اس کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتا ہے‘
اور یہ سیاست کے ایوانوں سے فارغ ہو جاتا ہے‘
یہ وہ چار فیصلے ہیں جن کی وجہ سے تاج برطانیہ صرف برطانیہ بننے کے باوجود دنیا کی پانچویں بڑی طاقت ہے اور دنیا بھر کے حکمران برطانیہ کے وزیراعظم اور ملکہ سے ہاتھ ملانا اعزاز سمجھتے ہیں۔
میں نے اکثر اپنے مُلک کے مختلف ادوار کے وزیرِ اعظم ،صدور و ووزراءکو 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں برطانوی وزیراعظم کے گھر کے دروازے پر کھڑا دیکھا‘
برطانوی وزیراعظم نے باہر نکل کراستقبال کیا‘
برطانوی وزیراعظم نے اپنے ہاتھ سے دروازہ کھولا اور ہمارے وزیراعظم کو اندر لے کر گئے‘
کیا ہمارے وزرائےاعظم نے اس منظر سے کچھ سیکھا؟

میرا خیال ہے. نہیں سیکھا ہو گا کیونکہ ہمارے کسی حکمران نے آج تک ان مناظر سے کچھ نہیں سیکھا‘
یہ لوگ سیکھ سکتے تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی‘
یہ لوگ آج بھی جگنی کے اس پروٹوکول سے باہر نہیں آئے جس کو برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مکمل طور پر ترک کر دیا تھا‘
ہمارے ملک میں آج بھی کرسی نشین اور سفید پوش موجود ہیں‘
پوری ریاست انھیں سیلوٹ کرتی ہے اور یہ لوگ جب تک سسٹم کا حصہ رہیں گے ہم اس وقت تک زوال کے عذاب سے نہیں نکل سکیں گے‘

میرا دعویٰ ہے ہمارا وزیراعظم جب تک 10 ڈائوننگ اسٹریٹ جیسے تین کمروں کے مکان میں شفٹ نہیں ہوتا اور یہ اپنے ہاتھ سے دروازے نہیں کھولتا‘
ہم اس وقت تک” جگنی” کے دور میں زندہ رہیں گے‘
ہم پر اس وقت تک اس “بلیو بک” کی حکومت رہے گی جس نے برطانیہ جیسی سلطنت کو تباہ کر دیا تھا ۔

(بدلنا صِرف سیاستدانوں کو ھی نہیں، بلکہ ھمیں بھی اپنی سوچ بدلنی ہے۔کیونکہ ہم آج بھی جگنی سے باہر نہیں آئے۔