30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں میں 538 ارب روپے (33.4 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے جو ماہانہ تقریباً 45 ارب روپے کا اضافہ بنتا ہے۔ یہ بات سینیٹر فدا محمد خان کی زیرصدارت بجلی سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سامنے آئی۔
حکومت یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ اس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دورانیے میں گردشی قرضوں میں ماہانہ اضافے کو 38 ارب روپے سے کم کرکے 12 ارب روپے کردیا تھا اور ہدف طے کیا تھا کہ دسمبر تک اس کو مزید کم کرکے 8 ارب روپے کردیا جائے گا۔
ایڈیشنل سکریٹری وسیم مختار کی سربراہی میں پاور سیکٹر ٹیم نے کمیٹی کو بتایا کہ 30 جون 2020 تک گردشی قرضے 21 کھرب 50 ارب روپے رہا جبکہ 30 جون 2019 کو یہ 15 کھرب 10 ارب روپے تھے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ گذشتہ سال تقریبا 240 ارب روپے جمع نہیں ہوسکے جس کی بنیادی وجہ کورونا وائرس اور تقسیم کار کمپنیز (ڈسکو) کی ناقص کارکردگی ہے، سرکلر قرضوں میں اضافے کا حجم 538 ارب روپے رہا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر نعمان وزیر خٹک اور جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ ڈسکوز کی ناقص کارکردگی کا بوجھ صارفین پر نہ ڈالا جائے۔
سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اگر ڈسکو تجارتی ادارے ہیں جو لوگوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کو حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکام کی جانب سے فراہم کردہ حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ بجلی کمپنیاں ‘مکمل ناکام’ ہیں۔
مختلف ٹیکسوں کے نفاذ کے سبب کسانوں کو مہنگے نرخوں پر بجلی مہیا کی جارہی ہے جبکہ وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ انہیں 5.35 روپے فی یونٹ کی مقررہ قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی۔
سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے افسوس کا اظہار کیا کہ خیبرپختونخوا میں سستے نرخوں پر بجلی کی پیداوار کی گئی لیکن یہ کراچی میں سب سے کم نرخوں پر فروخت ہوئی جو غیر منصفانہ ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ نے سوال کیا کہ ملک میں بجلی کے نرخ یکساں کیوں نہیں ہیں۔
اس پر پاور ڈویژن کے عہدیداروں نے وضاحت دی کہ بجلی کے نرخ ہمیشہ پورے ملک میں یکساں رہے ہیں لیکن کے الیکٹرک کی انتظامیہ معاملہ عدالت تک لے گئی جس کی وجہ سے کے الیکٹرک کے نرخ تقریباً تین سال تک نچلی سطح پر رہے۔ کمیٹی نے زور دیا کہ ملک بھر میں یکساں پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے اجلاس سے پاورسیکریٹری کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا تاہم ایڈیشنل سیکریٹری نے وضاحت دی کہ سیکریٹری کو وزیر اعظم کی جانب سے بلائے گئے ایک اور اجلاس میں جانا تھا۔