کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے ہٹایا نہیں جاسکتا، پاکستان

پاکستان نے بھارت کو یاد دلایا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے ایجنڈے سے کشمیر کو نہیں ہٹایا جاسکتا، جو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے بھارتی اقدامات پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ ‘ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے کشمیر کو ختم کرنے کا کہہ کر بھارتی نمائندے یا تو خود کو یا پھر اپنے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسا ہرگز نہیں ہوگا’۔ منیر اکرم نے کہا کہ سلامتی کونسل کا ایجنڈا قائم کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق طے کیا گیا تھا اور صرف کونسل کے اتفاق رائے سے ہی اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے، ‘ایک رکن ریاست یک طرفہ طور پر ایجنڈے کو تبدیل نہیں کر سکتی’۔

5 اگست ، 2019 سے جب سے بھارت نے متنازع علاقے کو غیر قانونی طور پر اپنے ساتھ ضم کیا ہے، پاکستان نے چین کے تعاون سے مسئلہ کشمیر کو 3 بار کونسل کے اندر اٹھایا ہے۔ تاہم بھارت کا مؤقف ہے کہ انضمام، جو غیر قانونی، نے مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کردیا ہے اور اس لیے اسے کونسل کے ایجنڈے سے ہٹا دینا چاہیے۔ سلامتی کونسل بھارتی دعوے کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو ایک حل طلب تنازع کی حیثیت سے پیش کرتی ہے بلکہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں اطراف فوجی مبصرین کو بھی برقرار رکھتی ہے۔

ہر سال سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے پر ‘بھارت اور پاکستان کے سوالات’ کے طور پر پیش کرتی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے دونوں ممالک کے درمیان متنازع علاقہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز کے سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ بھارت نے طویل عرصے سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ‘بھارت اور پاکستان کے سوالات’ کو ہٹانے کی کوشش کی ہے تاہم اپنی بہترین کوششوں کے باوجود بھارت کو مسلسل ناکامی کا سامنا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک سفارت کار نے بھارتی دعوے کو ‘احمقانہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ایجنڈا آئٹم تب ہی ختم ہوسکتا ہے جب تنازع حل ہوجاتا ہے یا سلامتی کونسل کے ‘اتفاق رائے سے فیصلہ ہوتا ہے’ کہ اسے اپنے ایجنڈے سے ہٹادیں۔ سفارت کار نے کہا کہ ‘جموں و کشمیر تنازع کے معاملے میں یہ واضح طور پر درست نہیں ہے’۔ ایک اور سفارت کار نے کہا کہ ‘افسوس کی بات ہے کہ جو ملک سلامتی کونسل میں شامل ہونے کے لیے اتنا بے چین ہے وہ اس کے کام کرنے کے بنیادی قواعد و طریقہ کار سے بھی واقف نہیں ہے’۔