کراچی: افغانستان سے ‘دہشگردی’ کیلئے آئے 2 عسکریت پسند ‘انکاؤنٹر’ میں ہلاک

پاکستان رینجرز سندھ اور پولیس نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں 2 مشتبہ عکسریت پسندوں کو ‘ انکاؤنٹر’ میں ہلاک کردیا۔

شہر قائد کے علاقے بلدیہ ٹاؤن مں بدھ کی علی الصبح ہونے والی مشترکہ کارروائی میں دہشت گردی کی کارروائی کے لیے حال ہی میں افغانستان سے آنے والے 2 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ‘انکاؤنٹر’ میں ہلاک کیا گیا۔

ترجمان رینجرز کے مطابق پیراملٹری فورس نے پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ساتھ مل کر انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کی اور ‘انکاؤنٹر میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 2 انتہائی مطلوب دہشت گرد’ ہلاک کردیا۔

مارے جانے والوں کی شناخت محمد رفیق عرف عادل اور عدنان شبیر عرف قاری کے نام سے ہوئی۔

ترجمان نے بتایا کہ ‘یہ (دہشت گرد) بم دھماکوں، بینک ڈکیتیوں، فرقہ وارانہ قتل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں کے قتل میں ملوث تھے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ رینجرز انٹیلی جنس اور سی ٹی ٹی کو خفیہ معلومات موصول ہوئی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کے استاد اسلم گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند بلدیہ ٹاؤن کے رئیس یار محمد گوٹھ میں موجود تھے، جس پر رینجرز کے شاہین گروپ اور سی ٹی ڈی پولیس نے منگل کی رات کو گوٹھ کا محاصرہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی فورسز کی جانب سے پیش قدمی کی گئی ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے میگا فون کے ذریعے دہشت گردوں سے سرنڈر کرنے کا کہا گیا تاکہ انہیں گرفتار کیا جائے لیکن انہوں نے مسلسل فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے بعد فائرنگ کے تبادلے کے دوران 2 عسکریت پسند مارے گئے۔

ان کے مطابق ملزمان کے قبضے سے 2 ایس ایم جیز، دو 9 ایم ایم پستول، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرلیا۔

ترجمان کے مطابق ‘دونوں ملزمان حال ہی میں افغانستان سے کراچی آئے تھے اور وہ دہشت گردی کی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے’۔

رینجرز کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محمد رفیق وزیرستان میں دہشتگردی کی کارروائی کے لیے مائنز اور آئی ای ڈیز تیار کرتا تھا اور دہشتگردوں کی کارروائی میں ملوث تھا۔

ملزم کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محمد رفیق 27 مارچ 2015 میں شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس وین پر ہونے والے اس حملے میں ملوث تھا جس میں 2 پولیس اہلکار شہید اور 15 زخمی ہوگئے تھے۔

مزید یہ کہ ترجمان رینجرز کے مطابق ملزم 12 اکتوبر 2014 کو بلدیہ ٹاؤن میں حب ریور روڈ پر رکشہ میں ہونے والے بم دھماکے میں تھا، جس کے نتیجے میں 4 افراد زخمی ہوئے تھے، اس کے علاوہ وہ 19 جون 2010 کو سٹی کورٹس پر ہونے والے مسلح حملے میں بھی ملوث تھا، جس کے نتیجے میں 4 عسکریت پسند شکیب مدثر، مراد شاہ، وزیر توس اور مرتضیٰ عنایت پولیس حراست سے فرار ہوگئے۔

واضح رہے کہ سٹی کورٹس پر ہوئے اس حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ دوسرا زخمی ہوا تھا۔

ترجمان کے مطابق عسکریت پسندھ محمد رفیق ‘مختلف فرقہ وارانہ قتل کی کارروائیوں’ میں بھی ملوث تھا۔

ساتھ ہی ترجمان نے مارے گئے دوسرے عسکریت پسند عدنان شبیر کے بارے میں بتایا کہ وہ ‘انتہائی تربیت’ تھا جو لشکر جھنگوی کے نعیم بخاری، فاروق بھٹی عرف تایا، شبیر عرف منا، اسحٰق عرف بوبی، عاصم عرف کیپری اور شاہ جہاں برمی کا قریبی ساتھی تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ملزم اگست 2015 میں کورنگی ساڑھے 5 نمبر میں ریسٹورنٹ پر ہوئے مسلح حملے کے دوران پولیس اہلکار عقیل احمد، محمد جمیل، محمد انوار اور محمد اختر کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا۔

اس کے علاوہ ان کے بقول ملزم 2014 میں کورنگی ڈھائی میں ہیڈ کانسٹیبل انور جعفری کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا، مزید یہ کہ وہ 2015 میں کورنگی کی ضیا کالونی میں اے ایس آئی پولیس محمد یوسف کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث تھا۔

مزید برآں ترجمان کے مطابق مارا گیا عسکریت پسند عدنان شبیر فرقہ واریت سے منسلک مختلف ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث تھا۔