پی آئی اے کی جانب سے یورپی یونین کے رکن ممالک کے فلائٹ آپریشن کی معطلی کے خلاف یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) کے پاس اپیل دائر کرے گی۔
پی آئی اے کے فلائٹ آپریشن معطل کرنے کا فیصلہ، قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان کے 262 پائلٹوں کے لائسنس ‘مشکوک’ ہونے کے انکشاف کے بعد یکم جولائی کو سامنے آیا تھا۔
ذرائع کے مطابق یہ اپیل پی آئی اے اور متعلقہ حکام نے تیار کرلی ہے اور اسے ای اے ایس اے میں داخل کرنے سے پہلے ایوی ایشن ڈویژن میں پیش کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پائلٹوں کے مشکوک لائسنسوں کا معاملہ سامنے آنے اور ای اے ایس اے کے یورپی یونین کے رکن ممالک کو پی آئی اے کی پروازوں کی اجازت معطل کرنے کے بعد ایجنسی نے پاکستانی حکام سے 11 نکات پر وضاحت طلب کیا تھا جس میں سب سے اہم سیفٹی مینجمنٹ سسٹم (ایس ایم ایس) تھا۔
ای اے ایس اے نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (پی سی سی اے) کس طرح کام کررہی ہے، اس نے درخواست دینے والوں کو کس طرح کمرشل پائلٹ لائسنس جاری کیا اور امیدواروں نے اپنے امتحانات میں پیپرز کیسے حل کیے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ای اے ایس اے نے قومی ایئرلائنز کی جانب سے چلائے جانے والے طیاروں کی تعداد کے بارے میں اور ائیرلائن کے حفاظتی اقدامات کو برقرار رکھنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی پوچھا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ای اے ایس اے کے سامنے دائر کی جانے والی اپیل میں گزشتہ 5 سالوں میں پاکستان میں طیاروں کے گرنے کے بڑے حادثوں اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکام کی جانب سے کیے گئے حفاظتی اقدامات کی بھی تفصیلات موجود ہیں۔
ای اے ایس اے نے پی آئی اے میں سیفٹی مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے جو دنیا کا بہترین نظام حاصل کررہا ہے۔
پی آئی اے اپنے بیڑے میں 8 سے 10 ہوائی جہاز شامل کرنے یا پرانے طیاروں کی جگہ بہتر اور نئے طیاروں سے تبدیل کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق ای ایس اے کے پاس اپیل دائر کرنے سے قبل پی آئی اے، ایوی ایشن ڈویژن میں ایک پریزنٹیشن دے گا۔
پی آئی اے بین الاقوامی اداروں کی مشاورت سے ایک جامع کاروباری منصوبہ تیار کررہا ہے تاہم ایوی ایشن کی صنعت میں جاری بحران کی وجہ سے اسے عارضی طور پر روک دیا گیا ہے جو کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہے۔
خیال رہے کہ ای اے ایس اے نے یکم جولائی کو پی آئی اے کی پروازیں معطل کرنے سے قبل ایئر لائن کو اپنی رائے پیش کرنے کا کہا تھا جس پر پی آئی اے نے اپنی رائے فراہم کیا تھا لیکن ای اے ایس اے نے اسے ناکافی قرار دے دیا تھا۔