پاکستان کو انصاف کا وطن بنانے کی کوششیں جاری ہیں، صدر مملکت

ملک بھر میں آج بھرپور قومی و ملی جوش و خروش کے ساتھ آزادی کو 73 سال مکمل ہونے پر جشن منایا جارہا ہے۔ اس سلسلے کی پرچم کشائی کی مرکزی تقریب اسلام آباد میں ایوان صدر میں ہوئی جس میں وفاقی وزرا، اعلیٰ سول اور عسکری حکام نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ آزادی کی تکمیل 14 اگست 1947 کو ہوئی، ملک بنانا ایسا ہی کہ کئی صدیوں کی جدو جہد کے بعد آزادی ملے لیکن اس کے بعد ایک نئی جدو جہد شروع ہوئی جس میں پاکستان کی تکمیل کے لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق اور مسلم امہ کی عکاسی کرتے ہوئے آخری نبی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے انصاف کا وطن بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی ﷺ سے فرماتے ہیں کہ جاؤ اور خوش خبری دو ان لوگوں کو کہ جنہوں نے آزمائشوں میں بھی اللہ کو یاد رکھا اور اللہ ان کو نوازے گا۔ صدر ملکت نے کہا کہ میں نے ایک لمبا دور دیکھا جس میں ہم اپنے آپ کو کبھی کسی تو کبھی کسی چیز پر ملامت ہی کرتے رہے، 74 سال قبل پاکستان کا جنم ہوا، اس نے سیکھا کئی ٹھوکریں کھائیں، آزمائشوں سے گزرا لیکن اللہ کا شاکر رہا۔

انہوں نے کہا کہ اس موقع پر میں 3 بڑی آزمائشوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے یہ ملک گزرا، 74 سالوں میں بہت ساری مشکلات رہیں لیکن ایک چیز جس میں کامیابی حاصل کی گئی اور اس کے لیے مسلح افواج اور پاکستانی شہریوں نے قربانیاں دیں وہ دہشت گردی کا مقابلہ ہے۔

دنیا کی کسی قوم نے اس انداز میں اس کامیابی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا، اس معاملے میں پاکستان نے دنیا کو سکھایا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کس طرح ہوتا ہے۔ دوسری چیز 35 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی گئی اور مجھے یاد نہیں کہ آج تک کسی سیاستدان نے اس خلاف بات کی ہو کیوں کہ وہ مسلم امہ کے حوالے سے ہمارے بھائی ہیں، ہم نے دل کھول کر انہیں خوش آمدید کہا اور آج بھی 27 لاکھ موجود ہیں۔

صدر مملکت نے اس کا موازنہ مغربی ممالک سے کرتے ہوئے کہا کہ وہ 100 مہاجرین کو بھی پناہ دینے کے لیے تیار نہیں، سمندر میں غرق ہونے دیتے ہیں یہ آپ کی جیت، آپ کے کردار کی نفاست ہے وہ کردار جو نبی ﷺ نے مسلم امہ کو سمجھایا تھا۔ انہوں نے کہا تیسری جیت آپ نے اپنے اندر سے انتہا پسندی کو ختم کیا، قوموں کو جوڑا، جو اس اتحاد کی تلاش تھی جو قائد کے اصولوں کے مطابق تھا۔

اس کے نتیجے میں جب گزشتہ برس جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو ان تینوں وجوہات کی بنا پر سارا پاکستان امن چاہتا تھا، وزیراعظم نے امن کا پیغام دیا، میڈیا امن چاہتا تھا لیکن سرحد کے پار سارا میڈیا اور دارے لوگ جنگ کی بات کرتے تھے لہٰذا قوم نے آزمائشوں سے گزر کر سیکھا۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ، حکومت، پارلیمان سمیت پوری قوم نے بدعنوانی کے خلاف علم بلند کیا جس کی عکاسی لیڈران پارلیمان اور وزیراعظم نے بڑے زور و شور کے ساتھ کی جس میں تنازع ہوسکتے ہیں لیکن اس کی جستجو جاری رہے گی۔ صدر مملکت نے کہا پاکستان پر کورونا وائرس کا حملہ ہوا جس میں دنیا لاک ڈاؤن کی جانب گئی لیکن وزیراعطم نے این سی او سی کی مدد سے غریبوں اور قوم کی فکر کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ہم وہ لاک ڈاؤن نہیں کرسکتے جس سے معاش کا سخت نقصان ہو اور بھوک سے لوگوں کی جانیں جائیں۔ صدر ملکت نے کہا کہ یہ فیصلہ اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ اپنی خواہش پر اور اس درد کے مطابق تھا جو عوام کے لیے سربراہان کے دل میں ہونا چاہیئے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ جب ساری دنیا میں مساجدیں لاک ڈاؤن کے باعث بند کی جارہی تھی اس وقت ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمان نظم و ضبط رکھنے والی قوم ہے وضو کر کے 5 وقت نماز پڑھنے مسجد میں جاتا ہے اس لیے انہی کو یہ ہمت دلائیں کہ خود سے اپنے اوپر ڈسپلن نافذ کر کے سماجی فاصلے، طہارت، صفائی کا خیال رکھتے ہوئے کورونا وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی تراویح جاری رکھیں۔

عارف علوی نے کہا کہ پاکستان دنیا میں پہلا ملک تھا جہاں سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے عبادات اور تراویں جاری رکھی گئیں، اللہ سے تعلق رکھا جس کی وجہ سے ہماری اسمارٹ لاک ڈاؤن کی کوششوں میں اللہ نے برکت ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ علما، میڈیا کا مشکور ہوں کہ جو مسلسل احتیاطی تدابیر کی تلقین کرتے رہے جو اب بھی جاری ہے کیوں کہ ہم کورونا وائرس کا پورا مقابلہ ابھی نہیں کرسکے لیکن جو کچھ ہم نے سیکھا ہے اس کی مدد سے ان شااللہ یہ کر گزریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جن کے اس وبا کی وجہ سے انتقال کر گئے ان سے تعزیت اور اس سلسلے میں محنت کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ صدر ملکت کا کہنا تھا کہ جب ہم نے مساجد کے لیے ایس او پیز کی بات کی تو ناقدین نے کہا کہ یہ قوم ان ڈسپلنڈ، ان پڑھ ہے یہ نہیں کرسکتی، اور یورپی ممالک میں دیکھنا کیسا نظم و ضبط ہوگا لیکن آپ کو تعجب ہوگا کہ مغربی ممالک میں کس طرح لوگوں نے مظاہرہ کیا اور پاکستان میں کیا مظاہرہ کیا گیا، ہم یقیناً بہتر رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دوسرے ممالک نے کہا کہ ہمیں پاکستان سے سیکھنا چاہیئے، ان تمام باتوں کو ذکر کرنے کا مقصد ملک کو ہمت دلانا ہے، قوم بدل رہی ہے۔ دوسری اہم چیز احساس پروگرام ہے، آئین میں ریاست نے عوام کے ساتھ تمام پاکستانیوں کے ساتھ غریبوں کا خیال رکھنے کا سماجی معاہدہ کر رکھا ہے چنانچہ احساس پروگرم ملک میں ہوا جس کے تحت مشکل وقت میں ایک کروڑ 69 لاکھ خاندانوں کو رقم پہنچی۔

صدر مملکت نے بھارت میں لاک ڈاؤن ہوا اور کروڑں غریبوں کو پیدل گھروں کو جانے کا کہ دیا گیا جو اشرافیہ کا لاک ڈاؤن تھا جس میں غریب مشکلات سے گزرا جبکہ پاکستان میں اسمارٹ لاک ڈاؤن لگایا گیا جس میں غریب کی فکر کرتے ہوئے احساس پروگرام کے ذریعے محبت کے رشتے کو بڑھایا۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایک کروڑ 69 لاکھ خاندانوں کو جو رقم پہنچی وہ انہیں کی امانت تھی اس طرح 7 سے 8 کروڑ افراد اس پروگرام سے مستفید ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومیں صحت اور تعلیم کی بنیاد پر غربت سے نکلتی ہیں اور کورونا وبا کے باعث صحت کے شعبے میں اس قدر تیاری کی گئی کہ اس سلسلے میں بنائے گئے خصوصی ہسپتال 60 یا 70 فیصد سے زیادہ استعمال نہیں ہوئے۔ تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ کووِڈ 19 کے تحت وزارت تعلیم نے بہت تیزی سے کام کیا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے گھروں تک تعلیم پہنچائی گئی جس کے لیے آئی ٹی کو بھی بہتر بنایا گیا۔ تاہم تعلیم کا سب سے اچھا راستہ یکساں نصاب تعلیم ہے جس سے ساری قوم اکٹھا ایک سوچ کے اعتبار سے آگے بڑھے گی اورسب کا معیار بلند ہوگا اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لیے 50 ہزار طلبہ کو اسکالر شپس دی گئیں۔

معیشت پر بات کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہہ کووِڈ 19 کے باعث دنیا کو بڑی آزمائشوں کا سامنا رہا اس کے باوجود پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے سے 3 ارب روپے کردیا گیا، زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے 8 ارب روپے سے ساڑھے 12 ارب روپے ہوئے، ٹیکسںوں میں 300 ارب روپے کا اضافہ ہوا، نیا تعمیراتی پیکج آیا جس کے تحت پاکستان کے معاشی اشاریے بہتر ہوئے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے 40 ہزار کی سطح عبور کی، موڈیز نے بی مستحکم رینکنگ دی۔

صدر مملکت نے کہا کہ معیشت کووِڈ 19 کے باوجود بہتری کی جانب گامزن ہے جو بہت بڑی جیت ہے اور اس پر قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ بعدازاں کشمیر پر گفتگو کرتے ہوئے عارف علوی نے کہا کہ 5 اگست کو یومِ استحصال کے طور پر منایا گیا، گزشتہ برس بھارت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا وہاں مظالم بڑھے اور بھارت نے پرانی تاریخ کو مٹا کر نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں اقلیتوں کے لیے شہریت قانون لایا گیا جس سے انتشار پھیل رہا ہے جبکہ پاکستان نے اقلیتوں کو متحد کیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے ہم چاہتے ہیں کہ وہاں استکام اور امن ہو لیکن وہ جب خود تیل چھڑک کر آگ لگاتے رہیں گے تو ہم سوائے پریشان ہو کر کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلے پر 4 سے 5 مرتبہ گفتگو ہوئی جو 55 سال بعد بہت بڑی کامیابی ہے جس طرح پاکستان کی عکاسی کی گئی اگر پاکستان اپنی معیشت بہتر کرتا جائے تو لگتا ہے کہ مسلم امہ کی قیادت پاکستان کی لیڈر شپ کے ہاتھ آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے معاملے میں پورا پاکستان اکٹھا ہے ہم کشمیری بھائیوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور ان کا مقدمہ لڑتے رہیں گے ساتھ ہی انہوں نے کشمیر کے حوالے سے آواز اٹھانے پر چین، ترکی ملائیشیا، او آئی سی اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کا شکریہ ادا کیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ یہ سب خوشخبریاں بتانے کے بعد اب اس بات پر توجہ دینی ہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے سب سے پہلے معاشرے میں عورت کا مقام، عورت کی وراثت کے حوالے سے آیت کریمہ کا ترجمہ پڑھنے کے بعد صدر مملکت نے کہا پاکستان میں کچھ جگہوں پر ایسی صورتحال ہے کہ عورت کو اس کا مکمل حصہ نہیں ملتا۔ دوسری بات قائد اعظم نے بھی کہا کہ جب عورت معاشرے میں اپنا صحیح مقام پائے گی اور 52 فیصد آبادی کا معیشت میں حصہ نہیں ہوگا تو وہ معیشت کمزوری کے ساتھ ترقی کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ عورت کو اس لیے طاقت نہیں دینی چاہیئے کہ مغرب کہتا ہے بلکہ اسلام کے اپنے طریقہ کار کے مطابق عورت کا ایک مقام ہے جس تک ہمیں پہنچنا چاہیئے اور اسے آزادی دینی چاہیئے۔ اسی کے علاوہ ریاست کا کام یہ کہ امیروں سے ٹیکس اکٹھا کرے اور غریبوں کو دیا جائے تا کہ اس کے حالات بہتر ہوں، یکساں تعلیم دی جائے کہ ہر نسل محنت کرکے اپنے حالات بہتر بنا سکے۔

افغانستان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کے لیے کوشاں رہا ہے اور افغان ٹرانزٹ کو کھولا گیا تو اگر افغانستان میں امن ہوگا تو خود افغانستان کے بعد پاکستان کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ انہوں نے نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنی پاکستانیت اور اسلام کے لحاظ سے اپنی جڑیں مضبوط کریں کیوں کہ طوفانوں میں وہ درخت کھڑے رہتے ہیں جن کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔