پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت افغان شہریوں کی سہولت کے لیے آج صبح افغانستان کے ساتھ موجود سرحدی گزرگاہ ایک روز کے لیے کھول دی۔ اس ضمن میں ایک پیرا ملٹری فورس کے عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پاک افغان چمن بارڈر صبح 8 بجے کھولا گیا جو 6 بجے شام تک کھلا رہے گا۔ جس کے بعد کئی ماہ سے انتظار کرنے والے افغان شہری بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں ہمراہ افغانستان کی جانب روانہ ہوگئے۔
خیال رہے کہ چمن بارڈ پر پیش آنے والے فائرنگ کے ناخوشگوار واقعے کے بعد پہلی مرتبہ یہ بارڈر کھولا گیا ہے۔ پاک افغان بارڈر پر باب دوستی کھولنے کا فیصلہ پیر کے روز دونوں ممالک کے فوجی کمانڈرز کی فلیگ میٹنگ میں کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان نے چمن میں ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کے بعد سرحد بند کردی تھی مذکورہ واقعے میں ایک خاتون سمیت 7 افراد جاں بحق اور 31 زخمی ہوئے تھے۔
فلیگ میٹنگ میں چمن میں فرنٹیئر کارپس (ایف سی) کے کمانڈنٹ لیفٹیننٹ کرنل سلمان نے متعلقہ افسران کے ہمراہ پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ افغان وفد کی سربراہی کرنل شریف نے کی۔
دونوں اطراف نے مسئلے کے حل کے لیے متعدد تجاویز پیش کیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس تقریباً 2 گھنٹے جاری رہا جس کے دوران چمن میں بے ہنگم ہجوم اور پاک اور افغان فورسز کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا گیا۔
ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ افغان فوجی عہدیداروں نے اس بات پر اصرار کیا کہ سرحد کو اسی طرح کھولا جانا چاہیئے جیسا کہ 2 مارچ کو کھلی ہوئی تھی اور دونوں اطراف کو نہ صرف پیدل چلنے والوں کو سرحد پار جانے کی اجازت دینی چاہیئے بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی اشیا سے لدی گاڑیوں اور درآمد و برآمد کی دیگر اشیا کی آمد و رفت کی بھی اجازت دینی چاہیئے۔
انہوں نے درخواست کی کہ افغان اور پاکستانی شہری جو روزانہ ایک دوسرے کے ملک میں آتے جاتے ہیں انہیں قومی شناختی کارڈ دکھا کر آمدو رفت کی اجازت دی جانی چاہیئے۔
عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان نے افغان عہدیداروں کو بتایا کہ ان کی تجاویز حتمی فیصلے کے لیے اسلام آباد بھجوائی جائیں گی۔
دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیااللہ لانگو اور وزیر زراعت زمرک خان اچکزئی نے تجاری برداری، سیاسی جماعتوں اور مزدوروں کے ساتھ عید سے قبل کامیاب مذاکرات کیے تھے جس کے بعد چمن میں 5 ماہ سے جاری دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 2 مارچ کو افغانستان کے ساتھ موجود سرحدی گزرگاہ چمن بارڈر بند کردییا گیا تھا۔
بعدازاں کچھ مواقعوں اور دنوں کے لیے چمن بارڈر کو کھولا بھی گیا تھا البتہ یہ دوبارہ مکمل طور پر معمول کے مطابق نہیں کھولی گئی جس کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد سرحد پار جانے کی منتظر تھی۔