پاکستان سٹیل ملز کی بحالی اور خارجہ پالیسی تحریر :رانا علمدار حسین خاں سڈنی آسٹریلیا

پاکستان سٹیل ملز کی بحالی اور خارجہ پالیسی
تحریر :رانا علمدار حسین خاں
سڈنی آسٹریلیا

آج ایک خوشگوار خبر نظر سے گزری جس میں بتایا گیا ھے کہ روس نے کراچی پاکستان کی عظیم سٹیل ملز کو بحال کرنے کیلیے نہ صرف تیکنیکی تعاون کی پیش کش کی ھے بلکہ بھاری مالی معاونت کا بھی اعلان کیا ھے، اس کے ساتھ ہی ماضی اور حال میں پاکستانی حکمرانوں کی پالیسیاں قطار اندر قطار زہن میں اتر رہیں ھیں جہاں اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر کبھی نظام اسلام کا نعرہ بلند کیا گیا اور کبھی ،مزہبی فرقہ واریت، لسانی اور علاقائ تعصبات کو ھوا دے کر اپنے وقتی مفادات کیلیے پاکستان اور غریب عوام پر شب خون مارا گیا۔جہاد افغانستان کے حوالے سے ہمیں یہ تو بتایا گیا کہ روس گرم پانیوں پر رسائ کیلیے افغانستان پر حملہ آور ہوا ھے ،اور اس کا اگلا شکار پاکستان ھے۔اسلیے ہم نے امریکی ڈالر اور امریکی اسلحہ کی مدد سے روس کیخلاف اسلام اور پاکستان کے تحفظ کیلیےجہاد کیا،جس کا نتیجہ ھم آجتک ہزاروں لاشیں، ناجائیز اسلحہ ،مسلح جہادی تنظیمیں، فرقہ واریت ،منشیات غربت، بےروزگاری اور مہنگائ کی صورت بھگت رہے ہیں۔
مگر یہ کبھی بھی نہ بتایا کہ روس نے 70ء کی دہائی میں ہی کس طرح عالمی سامراجی پابندی اور دباو کے باوجود تکنیکی اور بھاری مالی معاونت سے پاکستان کی تاریخ کے سب سے پہلے بڑے پراجیکٹ
“پاکستان سٹیل ملز کراچی “
کی بنیاد رکھوائی.
یاد رہے اس سے پہلے 1958 تک عالمی سامراج کی طرف سے سٹیل انڈسٹری کی ٹیکنالوجی پاکستان کو دینے پر پابندی عائد تھی، لیکن 1959 میں ہی روس نے وزیراعظم سہروردی کو سٹیل ٹیکنالوجی دینے کی آفر کی، لیکن سہرودی، شہید بھٹو اور ایوب خان کی بیحد کوشش کے باوجود پاکستان کے بہترین دوست امریکہ نے اس معاملہ پر تعاون نہ کیا.

2008 میں حکومتِ پاکستان کو 6 بلین ٹیکس ادا کرنے والی 75 مربع کلو میٹر طول عرض ، 18ہزار ایکڑ پر محیط اور 23 سال تک منافع دینے والی “صنعتوں کی ماں” پاکستان سٹیل ملز کراچی جس میں لوہے کی افزودگی کیلیے عالمی معیار کی ریسرچ لیبارٹریز کے ساتھ “میٹلرجیکل ٹیکنالوجی ٹریننگ انسٹیٹوٹ” بھی قائم کیا گیا تھا جہاں میٹلرجیکل انجینئرز اور ٹیکنیشنز تیار ھوتے تھے جو نہ صرف سٹیل ملز کراچی بلکہ پورے ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دیتے تھے۔اور ہزاروں کی تعداد میں افراد برسر روزگار تھے۔یہ وہی سٹیل مل کراچی ہی تھی جس کا کردار پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
2008 سے 2015 تک مسلسل خسارے میں رہنے کے بعد 2015 سے تاحال مکمل طور پر بند ہے،
جبکہ پاکستان میں 130 نجی سٹیل ملز کامیابی سے چل کر خوب منافع سمیٹ رہی ہیں.جن کے مالکان اکثر سابق یا موجودہ حکمران ہیں۔
آج پھر روس “پاکستان سٹیل ملز کراچی ” کی بحالی کیلے تکینکی اور افرادی معاونت کی ساتھ ساتھ
5 ارب ڈالر کی بھاری مالی مدد کرنے کو بھی تیار ہے۔
محبت وطن کا تقاضا ھے کہ ھم پاکستان کے مفادات کیلیے رائے عامہ کو ھموار کریں۔
ہر ملک کی بیرون دنیا تعلقات کی پالیسی ھوتی ھے۔کچھ وقتی مفادات کیلیے دوستی کرتے ھیں، جسے منافقت کے علاوہ کوئی بھی نام نہیں دیا جا سکتا، اور کچھ ممالک دائمی اور دور رس نتائج کو پیش نظر رکھتے ھیں۔پاکستان کی عمر اس وقت 73 سال کو پہنچ رہی ھے اور ھم نے بطور پاکستانی بہت سارے نشیب و فراز اور بیرونی دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف اٹھتی ،جمتی ،جھکتی اور پھر بدلتی دیکھی ہیں۔اور جو بات اب تک ھمارے تجزیہ و تجربہ میں آئ وہ یہ ھے کہ امریکہ ایک وقتی مفاد پرست مملک ھے اور اس کی وجہ وہاں کے حکمران ھیں ،عوام نہیں، چونکہ حکمران عموما سرزمین امریکہ کے جدی و پشتینی نہیں بلکہ غاصب اور حملہ آور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، موجودہ امریکہ کی بنیاد ریڈ انڈینز کے خون سے رکھی گئ ، آجتک حکمرانوں میں کوئ ریڈ انڈین نظر نہیں آتا اور اگر کوئ ھو بھی تو موجود پالیسی کے شکنجے میں سخت جکڑا ھوا مجبور ۔اور پھر ان حکمرانوں کی پشت پر ھمیشہ اسرائیلی یہودیوں کا ہاتھ رہا ھے۔بلکہ اس وقت امریکہ میں تمام میڈیا، تجارت اور پالیسیز انھی کے ہاتھ میں ھیں اس لیے ان کی پالیسی ھمیشہ وقتی مفاداتی(استعمال کرو اور پھینک دو) رہی ھےلہزا امریکہ نے ھمیں ھمیشہ پڑوسی ممالک سے الجھا کر رکھا، اسلحہ بیچا، قرضے دیے اور ورلڈ بینک کی دائمی غلامی.
جبکہ روسی عوام اور حکمران زمین زادے ھیں لہزا نفسیاتی طور پر بھی ان کی پالیسیاں پوری دنیا اور خصوصاََ پڑوسیوں کے ساتھ ھمیشہ دائمی رکھنے کی آرزو نظر آئی ھیں۔ان کا نظریہ
“خوشحال پڑوسی ھی پرامن پڑوسی ھوتا ھے”
پر مبنی معلوم ھوتی ھے۔لہزاء روس نے اپنے دوستوں کو ھمیشہ ٹیکنالوجی دی، قیمتی و کارآمد تحائف دیے۔اور ان کی ترقی و خوشحالی کیلیے کوششوں میں ساتھ دیا۔
اگر پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان روس کے دورے کیلیے تیار ھو کر ائیر پورٹ پر اپنا رخ بدل کر 3 مئ تا 26 مئ 1950 کے 23 دنوں پر مشتمل طویل دورہ کیلیے امریکہ نہ جاتے تو آج ملک میں امن و آتشی،معاشی خوشحالی اور ٹیکنالوجی کا ایک انقلاب نظر آتا۔اور اس وقت ملک میں کئ سٹیل ملیں اور ٹیکنالوجی کالجز اور یونیورسٹیاں نظر آتیں۔بعینہ یہی پالیسی چین کی بھی رہی ھے۔ھمارے سامنے شام اور ایران کی مثال ھے کیا خیال ھے کہ شام اور ایران نے اکیلے اپنے ملک بچائے ھوئے ھوئے ھیں ۔یقیناََ اس کے پیچھے ان ممالک کی بیدارمغز عوام اور ان کی قیادتیں ھیں جنھوں نے بیرونی دوست کا چناؤ عقلمندی سے کیا جبکہ ھمارے ہر آنے والے حکمران نے امریکہ کی طرح وقتی مفادات اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کی۔ورنہ ھم سعودی دباؤ کے تحت ملائشیاء کانفرنس2019ء میں شرکت سے انکار کرکے عظیم اسلامی لیڈر، ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد کو بالکل اسی طرح شرمندہ نہ کرتے جس طرح 1950 میں ہزاروں کی تعداد میں روسی عوام اور حکمران جو ائیر پورٹ پر استقبال کی تیاریوں میں تھے کو سبکی اٹھانا پڑی۔ اور شائید ھم نے انھیں منسوخی دورہ کی اطلاع دینا بھی گوارہ نہ کی۔
چونکہ ایک دفعہ پھر پانچ ممالک روس ،چین ،ترکی ،ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک مظبوط بلاک بننے کی خبریں گرم ھیں تو پاکستان سے حقیقی محبت کا تقاضہ ھے کہ بطور حکمران ھم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں، اور بطور محب وطن پاکستانی مخلص دوستوں کے چناؤ کیلیے رائے عامہ کو ہموار کریں تاکہ ھمارے حکمران نہ صرف عوامی دباؤ بلکہ عوامی حمایت کے ساتھ آزادانہ عوام و ملک دوست پالیسی اختیار کریں۔