سائنس فکشن فلمیں اکثر افراد کے لیے سمجھنا آسان نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے فلم بینی کے شوقین ہر شخص کو اس طرح کے موضوع کو دیکھنا پسند نہیں آتا۔
مگر پھر بھی سائنس فکشن فلموں کو پسند کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ضرور ہوگی اور اس پر بننے والی کئی فلمیں واقعی مسحور کردینے والی ہوتی ہیں، ضرورت بس کہانی کو سمجھنے کی ہوتی ہے۔
ایسی ہی ایک فلم 2002 میں ریلیز ہوئی تھی جو اب بھی دیکھنے والوں کو دنگ کردیتی ہے۔
ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ کی اس فلم میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جس میں مستقبل کا ایسا معاشرہ دکھایا گیا تھا، جہاں جرائم کا ارتکاب ناممکن ہوتا ہے۔
یہ فلم 1956 کی اسی نام کی ایک شارٹ اسٹوری پر مبنی تھی جس میں دکھائی جانے والی ٹیکنالوجی اب بھی سائنسدانوں کا خواب ہے۔
اس فلم میں 2054 کا سال دکھایا گیا ہے جب امریکا میں پولیس کا پری کرائم نامی محکمہ قائم کیا جاتا ہے، جہاں کمپیوٹر سے منسلک 3 انسان مستقبل میں ہونے والے جرائم کو قبل از وقت اسکرینوں پر دکھا دیتے ہیں۔
یہ محکمہ ان کے مطابق کام کرتے ہوئے قتل ہونے سے پہلے مجرموں کو گرفتار کرلیتا ہے اور امریکا بھر میں اس کے قیام کا فیصلہ ہونے والا ہوتا ہے۔
ٹام کروز نے اس محکمے کے کیپٹن جان اینڈرٹن کا کردار ادا کیا ہے، جس کا بیٹا پراسرار طور پر غائب ہوجاتا ہے اور بیوی سے علیحدگی ہونے کے بعد منشیاب کا عادی ہوجاتا ہے۔
یو ایس جسٹس ڈیپارٹمنٹ کا ایجنٹ ڈینی وٹویئر (کولن فرل) اس کرائم پروگرام کا آڈٹ کررہا ہوتا ہے، جس وقت کمپیوٹر سے منسلک ریکوگس پیشگوئی کرتے ہیں کہ جان اینڈرٹن ایک شخص کا قتل 36 گھنٹے بعد کرنے والا ہے۔
جان اینڈرٹن اس یشگوئی کے بعد فرار ہوجاتا ہے اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو تیار کرنے والی خاتون سے مشورہ لیتا ہے، جس کے مطابق وہ ایک پریکوگ آگاتھا کو نکال کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے تاکہ ممکنہ متبادل مستقبل جان کر اسے یقینی بناسکے۔
مرکزی کردار کیا واقعی وہ قتل کرتا ہے یا اس کے اس طرح پھنسانے کے پیچھے کون ہوتا ہے، یہ تو آپ فلم دیکھ کر جان سکتے ہیں، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس فلم کو دیکھ کر اسے ذہن سے نکالنا مشکل ہوگا۔
اس دنگ کردینے والی فلم کے چند حقائق بھی حیران کن ہیں۔
پہلے اسے فلم ٹوٹل ری کال کے سیکوئل کے طور پر تیار کیا جانا تھا، جو اسی طرح کی ایک اور دلچسپ سائنس فکشن فلم ہے، تاہم ٹام کروز نے اسٹیون اسپیلبرگ سے بات کرکے اسے الگ فلم کے طور پر تیار کیا۔
اس فلم میں کام کرنے والی ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ اور اداکار ٹام کروز نے معاوضہ نہیں لیا بلکہ باکس آفس کے 15 فیصد حصہ لیا، اس فلم نے دنیا بھر میں 38 کروڑ ڈالرز سے زیادہ کمائے۔
2054 میں دنیا کیسی ہوسکتی ہے، اس کا تعین کرنے کے لیے ڈائریکٹر نے 23 ماہرین کی مدد حاصل کی تاکہ ایسا مستقبل اسکرین پر دکھایا جاسکے جو حقیقی محسوس ہو، ان ماہرین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ 2054 میں پرائیویسی ماضی کا قصہ بن چکی ہوگی جبکہ ایک 80 صفحات کی کتاب بھی تیار کی گئی، تاکہ تسلسل برقرار رہے۔
فلم میں ایک گاڑی کی فیکٹری کا سین بھی تھا جو الفریڈ ہچکاک کی فلم نارتھ بائی نارتھ ویسٹ کے ایسے سین پر مبنی تھا جسے فلمایا نہیں گیا تھا۔
فلم میں تمام اسٹنٹ ٹام کروز نے خود کیے اور سی جی آئی کا استعمال نہیں کیا گیا، حالانکہ ڈائریکٹر ایسا چاہتے تھے مگر ٹام کروز سب کچھ قدرتی دکھانا چاہتے تھے۔
فلم کا 25 فیصد حصہ مختلف کمپنیوں کی مصنوعات کو دکھا کر حاصل کیا گیا جن میں ٹویوٹا، نوکیا اور دیگر برانڈ شامل تھے۔