وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام نے آٹے کے حالیہ بحران کی ذمہ داری ذخیرہ اندوزوں پر ڈال دی۔
اسلام آباد میں وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ چینی اور آٹے کا حلیہ بحران چند ماہ پہلے شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ گندم کی فضل کی ابتدائی قیمت 1360 روپے فی من اور فروری میں قیمت بڑھا کر 1400 روپے کردی گئی۔
فخر امام نے کہا کہ اس دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوا جس کے باعث مقامی مارکیٹ اور عالمی منڈی میں قیمت میں غیرمعمولی فرق دیکھنے میں آیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کم سے کم سپورٹ پرائز اور انٹرنیشنل پرائز میں فرق کا فائدہ ذخیرہ اندوزوں نے اٹھایا اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں گندم 1800 سے 1900 روپے فی من فروخت ہونے لگی۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے برس 7.2 ملین ٹن چاول پیدا ہوا تھا اور ڈھائی ارب ڈالر کے چاول کی مصنوعات برآمد کی گئیں اس لیے ہمیں چاول کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
فخر امام نے کہا کہ حکومت نے آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ستمبر میں درآمدی گندم آنے کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ گندم کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جاری ہے اور قیمتوں میں استحکام کے لیے پنجاب حکومت نے سرکاری گندم سبسڈی پر جاری کی ہے۔
فخر امام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قیمتوں میں اضافے اور ناجائز منافع خوری کے لیے ذخیرہ اندوزی برداشت نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ ملک میں آٹے اور چینی کے بحران کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے اور مختلف صوبوں میں کہیں آٹا دستیاب نہیں اور کہیں اس کی قیمت عوام کی قوت خرید سے باہر ہے۔
مذکورہ بحران کے پیش نظر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ریگولیٹری ڈیوٹی کے بغیر 3 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال فروری میں وزیراعظم عمران خان نے چینی اور آٹے کے حالیہ بحران کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘میں چینی اور آٹے کے حالیہ بحران میں حکومت کی کوتاہی کو قبول کرتا ہوں اور بحران پیدا کرنے والے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہوگئی’۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ‘تحقیقات کا عمل جاری ہے جس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ پائے گا’۔