وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان سعودی عرب کے تعلقات میں خرابی کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ کہ یہ ’طویل مدتی‘ اور ’عوام مرکوز‘ ہیں۔ دفترخارجہ میں میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط تھے اور رہیں گے، انہوں نے خاص طور پر کشمیر اور فلسطین پر دونوں ممالک کے مشترکہ مؤقف کو دہرایا۔
خیال رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے بارے میں ٹیلیویژن پر ریمارکس دینے کے بعد یہ وزیر خارجہ کی پہلی میڈیا گفتگو تھی، ان کے ریمارکس سے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے قیاس آرائیوں نے جنم لے لیا تھا۔
بعدازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 17 اگست کو ریاض کا ایک روزہ دورہ کیا جو آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی معاملات پر بات چیت کے حوالے سے تھجا لیکن خیال کیا جارہا تھا کہ دونوں فریقین نے شاہ محمود قریشی کے ریمارکس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
تاہم آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب کے بعد دفتر خارجہ کے لہجے میں بڑا واضح فرق دیکھا گیا، کشمیر پر او آئی سی کی تعریف بالخصوص اس کشمیر سے متعلق اس کی قرادادوں اور رابطہ گروپ کے اجلاس بہت واضح ہے اور اب اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کہ پاکستان او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا خواہاں ہے۔
خیال رہے کہ وزیر خارجہ نے ایک ٹیلیویژن پروگرام میں او آئی سی سے باہر مسلمان ممالک کا اجلاس بلانے کی دھمکی دی تھی۔
وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
تاہم نیوز کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ’کشمیر کا مسئلہ او آئی سی میں کس طرح لے جایا جائے اس کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے،کشمیر پر او آئی سی کے مؤقف میں کوئی ابہام ہے نہ اس تنازع پر سعودی مؤقف تبدیل ہوا ہے‘۔
وزیر خارجہ نے اپنے پہلے والے بیان کا براہ راست تذکرہ نہیں کیا البتہ ایک موقع پر یہ ضرور واضح کیا کہ تعلقات میں توقعات ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہہ ’چونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مضبوط ہیں اس لیے عوام کی کشمیر پر ان سے توقعات وابستہ ہیں جس کا وہ اظہار کرتے ہیں‘۔
متحدہ عرب امارات کے صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہر ملک اپنے فیصلے لینے میں خود مختار ہے لیکن اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے حوالے سے مسلم دنیا میں غالب نقطہ نظر تبدیل نہیں ہوا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے سعودی عرب کے اپنائے مؤقف کا حوالہ دیا جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول کے مطابق کرنے کے کو فلسطینی ریاست کے قیام سے منسلک کیا۔