وزیر اعظم عمران خان نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ مستقل طور پر امن کی کوشش کرے۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ‘امن عمل کی موجودہ رفتار کو امریکا طالبان امن معاہدے کے نفاذ کے لیے بڑھانا ہوگا جس سے بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہونے کی راہ ہموار ہو سکے گی’۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا اور انہیں عید الاضحی کی مبارکباد پیش کی۔
وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق ‘دونوں رہنماﺅں نے افغان امن عمل کے نئے مرحلے پر بھی تبادلہ خیال کیا، وزیراعظم عمران خان نے امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امن بڑی اہمیت کا حامل ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم افغانستان۔پاکستان ایکشن پلان برائے امن و استحکام (اے پی اے پی پی ایس) کے اگلے اجلاس کے جلد از جلد انعقاد کے خواہاں ہیں’۔
واضح رہے کہ یہ گفتگو اس لیے اہم تھی کیونکہ چمن / اسپن بولدک بارڈر کراسنگ پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان سرحدی تصادم کے تین دن بعد ہوئی تھی۔
خیال رہے کہ افغان طالبان نے 29 جولائی کو اعلان کیا تھا کہعید الاضحیٰ کے موقع پر 3 دن کے لیے جنگ بندی ہوگی، جس کے جواب میں افغان حکومت نے بھی جنگ بندی کا اعلان کردیا تھا۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر مذکورہ پیش رفت سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘عید الاضحیٰ کے مذہبی تہوار کے موقع پر طالبان کی جانب سے کارروائیاں نہیں کی جائیں گی’۔
ترجمان افغان طالبان نے واضح کیا تھا کہ جنگ بندی کا آغاز جمعے کے روز سے شروع ہوگا جو 3 روز تک نافذ العمل ہوگا۔
اپنے پیغام میں انہوں نے جنگجوؤں کو ہدایت کی تھی کہ وہ عید کے تین دن اور تین راتوں کے دوران ‘دشمن’ کے خلاف کارروائیوں سے گریز کریں۔
ترجمان طالبان نے خبردار کیا تھا کہ ‘اگراس دوران دشمن نے حملہ کیا تو جوابی کارروائی کی جائے گی’۔
طالبان کے اعلان کے بعد افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے کہا تھا کہ حکومت نے تمام سیکیورٹی فورسز کو سیز فائر کا حکم دے دیا۔
صدیق صدیقی نے کہا تھا کہ ‘افغان حکومت، طالبان کی جانب سے عید الاضحیٰ پر جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کرتی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیکیورٹی فورسز کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی تو بھرپور جوابی کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ عید کے تیسرے روز افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں جیل پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا جہاں کم ازکم 29 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ جیل سے کئی قیدیوں کے فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ افغان جیل پر کیے گئے حملے کے دوران سیکیورٹی فورسز اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
صوبہ ننگرہار کے ہسپتال کے ترجمان ظہیر عدیل نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار سمیت اب تک 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ گورنر کے ترجمان نے ہلاکتوں کی تعداد 21 بتائی، جس میں بعد ازاں اضافہ ہوا۔
ظہیر عدیل نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا تھا کیونکہ 40 سے زائد زخمیوں کی حالت اس وقت تشویش ناک تھی۔